میں وہ نہیں کہ جو
تمہاری غیرت کے نام پہ قتل کردی جاؤں
جھوٹی انا کی بھید چڑہا ئی جاؤں
زندہ جلا دی جاؤں ، دفنا دی جاؤں
پیروں تَلے روند دی جاؤں
جہالت کے اندھیروں میں چھپائی جاؤں
انسانیت کے درجے سے گرا ئی جاؤں
بازارِ حسن میں بکوائی جاؤں
ہوس کا نشانہ بنائی جاؤں
نفس کے لئے بہکا ئی جاؤں
حسن کے ترازو میں چڑھائی جاؤں
سرِعام بے نقاب کروائی جاؤں
دکھوں کی چکی میں پسوائی جاؤں
خوشیوں کے لئے ترسائی جاؤں
حقوق کے لئے تڑپائی جاؤں
بیٹیوں کے نام پہ دھمکا ئی جاؤں
طلاق کے نام پہ رسوا کر دی جاؤں
جوؤے میں ہرائی جاؤں
دولت سے کما لی جاؤں
سوداگروں کی محفل میں بولی لگا دی جاؤں
میں وہ ہوں کہ —
بیٹی بنوں تو رحمتیں پھیلاؤں
بہن ہوں تو دکھ درد پہ مرہم لگاؤں
بیوی بنوں تو شوہر کو سر کا تاج بناؤں
ماں بنوں تو پیروں تلے جنّت پاؤں
میں تمہاری عزت و آبرو کی علمبردار ہوں
میں ذ ہانت سے اپنا لوہا منواؤں
میں چاہوں تو آسمان میں پرواز کروں
کامیابی کے تمغے سجاؤں
ہنر سے روشن نام کماؤں
نفرت کو پیار سے مٹاؤں
باطل کو حق سے ہراؤں
دکھ میں خوشی کی امید دلاؤں
تم کو مسکرانا سکھاؤں
رشتوں کو آخری سانس تک نبھاؤں
اپنوں کے لئے اپنا وجود مٹاؤں
انا کو پیروں تلے دباؤں
آنسوؤں کواپنی ذات میں چھپاؤں
طوفان اپنے اندر دبا کے مسکراؤں
جس گھر جاؤں بہاریں ساتھ لاؤں
میں مکان کو گھر بناؤں
خوشیوں کا آشیانہ سجاؤں
میں سسرال کو اپنا بناؤں
پیار کے سانچے میں ڈھل جاؤں
اپنے آنسوؤں سے پتھر پگھلاؤں
ٹوٹ کے بکھرون توسنبھل نا پاؤں
میں وہ ہوں کہ جو قربانی میں اپنی مثال نا پاؤں
میں وہ ہوں کے عاجزی میں ملیامیٹ ہو جاؤں
میں میں ہوں
میں بنتِ حوّا ہوں —-
صاحب اسراء ؛ امام مسجد کی بیٹی،ایک ایتھلیٹ،ایک مثال،ایک روشن مستقبل