کیا ماہرہ خان اور جاوید شیخ کا تنازعہ ہماری معاشرتی دو رنگی کو ظاہر کرتا ہے

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

شاید یہ معاشرہ ایک الجھی ہوئی ڈور جیسا ہے جس کا کوئی سِرا مل کر نہیں دے رہا۔ ہمارے اپنے لئے کچھ اور اصول ہیں جبکہ دوسروں کو کسی اور عینک سے دیکھتے ہیں۔ ماہرہ خان اور جاوید شیخ کے معاملے پر ردعمل نے میرے ذہن میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

ایک طرف لگتا ہے کہ ہماری سوچ اور رویئے متضاد ہیں۔ بحیثیت قوم ہم شکوک و شبہات اور کشمکش کا شکار ہیں اور دوسری جانب ایک ایسا طبقہ ہے جو معاشرتی تقاضوں کو اپنی انفرادی آزادی کے نام پر کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔ سب سے پہلے معاشرے کی بات کر لیں جسے کچھ برسوں کے دوران ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا نے کافی حد تک بدل دیا ہے، مگر اب بھی کئی معاملات میں ہمارا ردعمل بہت سخت ہوتا ہے۔


ایک عام فرد کی بات کی جائے تو وہ ٹی وی پر فلمیں ڈرامے اور تفریحی پروگرام دیکھنے کے ساتھ شوبزاور فیشن انڈسٹری کی خبروں میں شاید کسی حد تک زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بلامبالغہ دن رات ہر قسم کی آزادی کا فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن دوسری طرف اچانک ہی اس کے اندر مہذب اور شائستہ انسان جاگ جاتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ کوئی بھی اپنی معاشرتی اقدار پر سمجھوتہ نہیں کرتا، مگرکیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مادّی ترقی کے ساتھ دنیا میں رہن سہن، میل جول کے طریقے اور برتاؤ کے انداز بھی بدل رہے ہیں اور ان سے ہم آہنگ ہوئے بغیر کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

اسی مادّی تبدیلی کا اثر آج ہم بالخصوص میڈیا کی بدولت اپنے طرزِ معاشرت پر دیکھ تو رہے ہیں، مگر بعض معاملات پر ہم غیرمتوقع جذباتیت اور حساسیت کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ خصوصاً شوبزاور فیشن کی دنیا کے ستاروں پر ہماری گہری نظر رہتی ہے۔ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر تو ہم اپنی اقدار اور روایات کو کسی نہ کسی شکل میں روز ہی پامال کرتے ہیں، مگر کسی تقریب میں شریک مشہور شخصیت کا نہ صرف لباس بلکہ اسکی باتیں، نشست و برخاست، کھانا پینا اور ساتھی آرٹسٹوں کے ساتھ اسکی بے تکلفی اور آپس میں میل جول پر ہم کڑی نظر رکھتے ہیں۔ اگر ذرا سی بات بھی مزاج کے خلاف دیکھی تو اسے اپنی تہذیب اور اقدار کے لئے مسئلہ قرار دے دیا۔ غالباً یہی کچھ ماہرہ اور جاوید شیخ کے معاملے میں ہوا ہے۔

قدامت پرست معاشرے سے میرا سوال ہے کہ آخر فلم اور فیشن انڈسٹری کی شخصیات کو کیسے وضع قطع، لباس اور نشست و برخاست کے طریقے اپنانا چاہییں اور خوشی و غم کے کسی موقع پر وہ کس طرح اپنے جذبات کا اظہار کریں؟ کیا یہ معاشرہ فلم اور فیشن انڈسٹری کی شخصیات سے یہ توقع کرتا ہے کہ پبلک کے سامنے آکر وہ کسی مدرسے یا اسکول کے طالبعلم کی طرح برتاؤ کریں؟ یہ تو ایک طرف کی بات ہوگئی۔ اب آزاد خیال طبقے کی طرف چلتے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ اس معاملے کو مختلف انداز سے دیکھنا اور سمجھنا ہو گا۔ اس وقت جاوید شیخ کی جانب سے بوسے کی ایک ناکام کوشش پر یہ قوم برہم ہے اور یہ سب ہوا ہے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں لکس اسٹائل ایوارڈ 2018ء کا میلے میں جہاں ماہرہ خان کو فلم ’ ورنہ ‘ کے لئے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ جب وہ اس ایوارڈ کو وصول کرنے اسٹیج پر پہنچیں تو وہاں پاکستان کے لیجنڈ اداکار جاوید شیخ اور اداکارہ ماورا حسین نے انکو ویلکم کیا۔ ماہرہ خان اسٹیج پر پہنچ کر ماورا حسین سے بغلگیر ہوگئیں۔

خواتین کے روایتی انداز میں دونوں نے ایک دوسرے کو بوسہ دیا اور پھر ماہرہ خان جاوید شیخ کی طرف پلٹیں۔ تب ایک تنازع نے جنم لیا۔ وہ جاوید شیخ کی جانب بڑھیں اور ان سے مصافحہ کیا، جس کے فورا بعد جاوید شیخ نے انھیں خود سے قریب کرتے ہوئے بوسہ لینے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ ماہرہ نے خود کو جاوید شیخ کے بوسے سے بچا لیا بلکہ ان کا دھیان ماورا حسین کی جانب تھا جو ایوارڈ ہاتھ میں لئے ان کی منتظر تھیں۔

 

یوں ماہرہ نے جاوید شیخ سے مصافحہ کرنے کے بعد فوراً ماورا کی طرف قدم بڑھا دیئے اور جاوید شیخ ان کے رخسار نہ چُھو سکے۔ وہاں کیمروں کی آنکھ نے اس منظر کو محفوظ کرلیا اور چند سیکنڈز کی دیر تھی ہر طرف جیسے آگ لگ گئی۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جاوید شیخ پر سماجی رابطوں پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ ماہرہ خان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لیجنڈری اداکار جاوید شیخ کی حمایت کی اور کہا کہ جاوید شیخ ان کے لئے استاد کا درجہ رکھتے ہیں اور میں ہمیشہ ان کے اعلیٰ کردار کی گواہی دوں گی۔ گویا انکا کہنا ہے کہ وہ ہاتھ ملا کر فوراً ایوارڈ کی طرف متوجہ ہو گئیں اور یہ نہیں دیکھ سکیں کہ جاوید شیخ ان پر مائل بہ کرم ہیں ورنہ شاید جاوید شیخ کا بوسہ انکے لئے ایک اور ایوارڈ ہوتا۔

 

شوبزنس اور فیشن کی دنیا کی آزاد خیال شخصیات یہ بتائیں کہ کیا وہ اپنے معاشرے کی اقدار اور روایات سے واقف نہیں۔ کیا کسی موقع پر پبلک کے درمیان یا اسٹیج پر کیمرے کی موجودگی میں اقدار اور روایات کو ملحوظ نہیں رکھنا چاہیئے؟ آپ اسٹیج پر آکر شائستگی اور بیباکی میں فرق بھول جائیں تو پھر اسی قسم کا ردعمل سامنے آئیگا۔

To Top