ماں کی محبت کا کوئی مول نہیں

میں نے ہمیشہ خود کو مظبوط اعصاب کا مالک سمجھا ہے، زندگی میں آنے والی ہر چھوٹی بڑ ی مشکل کا ڈٹ کے مقابلہ کیا ہے۔ لیکن آج سے قبل ، کبھی میں نے اپنی امی کی آنکھوں میں آنسوں نہیں دیکھے تھے، آج مجھے احساس ہوا کےمحبوباؤں کی ناراضگی، دل لگی ، دل کا ٹوٹنا سب بکواس ہے مجھے یہ احساس ہوا کہ جیسے میں بطور ایک بیٹا اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہوا ہوں۔

میرا ۱۴ سالہ بھائی ٹی۔بی کے مرض میں لاحق ہے جو ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہے، ہسپتال کےقوائد کے مطابق ایک خاتون ہی تیمادار ہو سکتی ہے اور والدہ  سے بڑھ کر اس کام کے لیے اور کون موزوں ہوسکتا ہے؟ والد صاحب صبح کودفتر جاتے ہیں، میں نے بھی آفس جانا ہوتا ہے اس وجہ سے ہمشیرہ بھی ہسپتال نہیں جاسکیں۔

دیہاتی پس منظر رکھنے ، اردو روانی سے نہ بولنے، کراچی سے ناواقفیت اور تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باجود بھی امی ہسپتال میں اکیلی رہنے کے لیے راضی ہوگئیں۔ جیسے تیسے کرکے ہسپتال میں ایڈمیشن مل گیا اور شام کو امی کو پیسے دے کر سب گھر واپس آگئے۔ پہلے دو  چار دن میں پابندی سے ان کو کال کر کےبھائی کی طبیعت کا پوچھتا رہا لیکن مہینے کے آخری دنوں میں  آفس میں ورک لوڈ کی وجہ سے امی کو کال نہ کر سکا، باوجود اس کے کہ مجھے سارا دن یاد تھا کہ امی کو کال کرنی ہے۔

اس دوران اتوار کا دن آگیا اور آدھا دن  تو سوتے ہوئے گذر گیا باقی آدھا  دن بیچ لگژری ہوٹل میں منعقد دوسرا سندھ لٹریچر فیسٹیول دیکھنے چلا گیا۔ رات کو دیر سے لوٹا اور صبح کو پیر پھر سے آفس ۔۔۔۔۔۔۔ خیر شام کو کال کی امی کی تو آواز بھری ہوئی تھی کہ  کہنے لگی: ایک ہفتے میں اتنے پکے ہوگئے ہو ۔ مجھ سے اور کچھ نہ بولا گیا۔ الفاظ کے پیچھے چھپا کرب میں نے محسوس کرلیا تھا۔

لہذا شام کو  آفس سے چھٹی ہوتے ہی چھوٹےبہن بھائیوں سمیت ہسپتال پہنچ گیا۔ مسلسل جاگنے اور آرام پورا نہ ہونے کی وجہ سے امی کی آنکھوں میں بے آرامی دیکھ سکتا تھا ۔ ایک ہفتے میں ۱۵ مختلف میڈیکل ٹیسٹ ہوئے اور ان ٹیسٹ کے لیے گھنٹوں  لائن میں لگ کر اپنی باری آنے کا انتظار کرنا پڑتا، ہم جب تک امی کے ساتھ بیٹھے امی کے ہاتھ ان کے گھٹنوں پر تھے۔

سی ٹی اسکین ہوتا دیکھ کر امی بہت افسردہ ہوگئیں تھی ، صدمے میں تھیں اور کل سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ۔پتا نہیں کیوں مجھے لگا کہ امی رو دیں گی  اس لیے  ملاقات کا وقت ختم ہونے پر ان سے اجازت لے کر میں پہلے نکل آیا  لیکن نظروں سے اوجھل نہیں ہوا، ہاں بس چائے کا سنا جب  تک ان کی آواز قابلِ سماعت تھی۔ دورانِ واپسی ہمشیرہ سے پوچھا : امی چائے کے لیے کیا کہہ رہی تھیں؟  امی کہہ رہی تھی چائے والا بھی کمبخت دور ہے اگر خواجہ چائے لاکر دےدیتا!

To Top