ایک ایسی لڑکی جو معاشرے کی کمزور دیواروں کو توڑ دینا چاہتی ہے

میں ایک لڑکی ہوں ۔میرے والدین اسی معاشرے کے عام والدین جیسے والدین ہیں ۔میرے والد ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم ہیں ۔ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں ۔ ہمارے والد نے اپنی تمام کوششیں استعمال کر کے ہمیں تعلیم دلوائی ۔دو سال پہلے میری بڑی بہن کی تعلیم کی تکمیل کے بعد انتہائی شان و شوکت کے ساتھ اس کی شادی کی ۔

اب میں بھی یونی ورسٹی کی طالبہ تھی ۔ اگلے سال تک میری بھی تعلیم مکمل ہو گئی اب میری بھی شادی کا ارادہ میرے والدین کے دل میں تھا۔بھائی ابھی چھوٹا ہے کالج میں پڑھ رہا ہے ۔ میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے پرپوز کیا تو میں نے انکار نہیں کیا ۔مجھے لگا کہ ہمارے درمیان محبت کا جزبہ موجود ہے ۔اسی سبب میں نے اس سے کہا کہ وہ اپنے والدین کو میرے گھر بھجوا دے ۔

اس کے رشتے کے آںے پر میں بہت خوش تھی ۔دونوں گھرانوں نے ایک دوسرے کو بہت پسند کیا اور گھر والوں کی مرضی سے ہمارا رشتہ طے ہو گیا۔ میں بہت خوش تھی ۔ مجھے من چاہی منزل مل رہی تھی ۔شادی کی تاریخ ہماری پڑھائی کی تکمیل کے بعد رکھی گئی تھی ۔
مجھے اپنی خوشی میں اس بات کا دھیان ہی نہیں رہا کہ میرے رشتے کے بعد سے ابو بہت چپ چپ رہنے لگے ہیں ۔ایک دن امی ابو کے کمرے کے باہر سے گزرتے ہوۓ ان کی آواز نے میرے قدم روک لۓ ۔امی ابو سے کہہ رہی تھیں کہ شادی میں صرف چندمہینے رہ گۓ ہیں آپ نے اب تک شادی ہال کی بکنگ نہیں کروائی ۔

ابھی تو شادی کا جوڑا زیور سسرال والوں کے تحفے لڑکے کی خریداری کے پیسے اتنا سب کچھ چھ مہینے میں کیسے پورا ہوگا ۔ ابو امی کو بتا رہے تھے کہ ابھی تو وہ لون بھی پورا نہیں ہوا جو کہ پہلی بیٹی کی شادی پر لیا تھا ۔

مجھے اس پل اپنا آپ بہت گھٹیا لگا ۔ میں شادی تو کرنا چاہتی تھی مگر ایسی شادی جس کے سبب میرے والد اتنے پریشان تھے مجھے برداشت نہ تھا ۔ لوگوں کو دکھاوے کے لۓ بڑے شادی ہال ، ان کے بڑے بڑے پیٹ بھرنے کے لیے انواع و اقسام کے کھانے اور اس کے ليے لیا گیا اتنا بڑا قرضہ مجھے مار ڈال رہا تھا ۔

شادی کا سب سے لازمی جز دلہن کا جوڑا ہوتا ہے جس کی قیمت میرے والد کی ایک ماہ کی تنخواہ سے زیادہ ہی ہوتا ہے میں ایسا جوڑا نہیں پہننا چاہتی جس کے لۓ میرے والد کی ایک ماہ کی شب و روز کی خون پسینے کی کمائی خرچ ہو اور جو اس ایک دن کے بعد دوبارہ میں نہ پہنوں ۔

میں بہت پیار کرتی ہوں اس انسان سے جس نے میرے والدین سے عزت کے ساتھ عمر بھر کے لۓ میرا ہاتھ مانگا تھا ۔ مگر اس ساتھ کی اتنی بڑی قیمت کیسے ادا کر دوں جس کے لۓ میرے باپ کو دوبارہ قرضوں کے دلدل میں پھنس کے رہ جانا پڑے ۔

میں تو ایسی شادی چاہتی ہوں جس میں ہم شادی کی خوشی کو حقیقی معنوں میں محسوس کر سکیں ۔جس میں ملن کی خوشی ہو اس بات کا ڈر نہ ہو کہ کون کیا کہے گا۔ جس میں ایک دوسرے کو دکھ دینے کے بجاۓ ایک دوسرے کو مشکل میں گرفتار کرنے کے بجاۓ اس کو سکھ دیا جاۓ ۔

جب میں نے اپنے منگیتر کو اس بات سے آگاہ کیا تو وہ تو میری بات سمجھ گیا مگر اس کی امی اور اس کے گھر والوں نے ایسی شادی سے انکار کر دیا جس میں ان کے ارمان پورے نہ ہو سکیں ۔مجبورا اسے مجھ سے شادی سے انکار کرنا پڑا ۔ اور اس کے نتیجے میں مجھے اپنے ماں باپ اور خاندان والوں کی باتیں بھی سننا پڑیں مگر میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ مجھے شادی کرنی ہے مگر ایسی شادی نہیں کرنی جو میرے ماں باپ کے لۓ ایک بوجھ بن جاۓ ۔

To Top