پسند کی شادی لڑکی کے لیۓ جرم کیسے بن گئی ؟دیکھیۓ اس ویڈیو میں

اسلامی نقطہ نظر سے لڑکے  اورلڑکی دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شادی کا فیصلہ اپنی مرضی سے کریں مگر معاشرے میں موجود افراد یہ حق دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ماں باپ اور رشتے دار اس بات کا اپنا حق سمجھتے ہیں کہ وہ بچوں کی شادی کا فیصلہ اپنی مرضی سے کریں گے ۔

معاشرے میں موجود عدم برداشت کی روایت اس بات کو عزت کا مسلہ بنا لیتی ہے کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی اپنی شادی کا خود فیصلہ کرے ۔بدلتے وقت کے ساتھ بہت سارے گھرانوں میں لڑکوں کے اس حق کو تو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ وہ اپنی شادی کا فیصلہ اپنی پسند سے کر سکتے ہیں مگر لڑکیوں کے لیۓ یہ اجازت ابھی بھی ندارد ہے ۔

اور اگر کوئی لڑکی معاشرے سے بغاوت کرتے ہوۓ ایسا کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو یا تو زندہ جلا دیا جاتا ہے یا پھر کرنٹ لگا کر موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا ہے مگر اس سب سے قبل اس لڑکی کو ڈرا دھمکا کر مار پیٹ کر کے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پسند سے دستبردار ہو جاۓ ۔

معاشرے کی یہ روایات لڑکی سے وہ حق چھیننے کی کوشش کرتی ہیں جس کا حق اس کو اس کے مذہب نے دیا ہوتا ہے ۔ اس کوشش میں ماں باپ کے ساتھ ساتھ بھائی ماموں چاچا سب شریک ہوتے ہیں جن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ پسند کی شادی کر کے درحقیقت لڑکی معاشرے میں ان کے نام کے شملے کو جھکانے کا سبب بن رہی ہے ۔

ایسے ہی ایک واقعہ کی ویڈیو گزشتہ دن سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی جس میں ایک لڑکی کو پسند کی شادی کے جرم میں نہ صرف حیوانی انداز میں مارا پیٹا گیا بلکہ اس کو اس کی دوست کے گھر سے  غیر انسانی انداز میں گھسیٹتے ہوۓ گھر سے کھینچ کر نکالا گیا لاہور میں ہونے والے اس واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکی کی ماں اور بھائی کس طرح زبردستی گھر میں داخل ہوۓ ۔

اس کے بعد لڑکی کو بالوں سے گھسیٹتے ہوۓ باہر لے کر آۓ ۔ اس دوران اس لڑکی کو اس کا بھائی اور اس کی ماں مستقل طور پر تشدد کا نشانہ بناتے رہے ۔ اور اس سارے تشدد کا ایک ہی سبب سامنے آيا کہ یہ لڑکی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی جو کہ اس کے گھر والوں کو قبول نہیں تھا

اس لڑکی کے ساتھ اس ویڈیو کے بعد بھی کیا کیا ظلم کیۓ گۓ ہوں گے ان کے بارے میں سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے ہو سکتا ہے اس لڑکی کو بھی ماضی کی طرح موت کی گھاٹ اتار دیا جاۓ اور یہ کہہ کر دفنا دیا جاۓ کہ بیماری کے سبب مر گئی یا جلا دیا جاۓ اور کہا جاۓ کہ کھانا بناتے ہوۓ جل کر مر گئی ۔

اکیسویں صدی میں ہونے والی ایسی بربریت ہم سب سے یہ سوال کرتی ہے کہ اگر ہم نے لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی کرنا تھا تو پھر قبل الاسلام کا معاشرہ کیا برا تھا جہاں پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے کا رواج تھا

To Top