یروشلم کو اسرائیلی تسلط سے آزاد کروانے کے لیۓ جدوجہد کرنے والی ایک بہادر عورت

پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کا قائم ہونا کسی نظریے کے تحت تھا ۔جس طرح پاکستان کا نظریہ ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام تھا جہاں پر مسلمان اپنی مذہبی روایات و رواج کے تحت زندگی گزار سکیں ۔مگر دنیا میں ایک ملک اور  بھی ہے جس کا قیام ایک خاص نظریۓ کے تحت ہوا ۔اور وہ دوسرا ملک اسرائیل ہے ۔

اسرائیل کے قیام کا مقصد یہودیوں کو دنیا بھر سے جمع کر کے کسی ایک مقام پر آباد کرنا تھا ۔اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہودی درحقیقت وہ قوم ہیں جس کو قرآن میں بنی اسرائیل کے نام سے پکارا گیا۔ یہ ایک زمانے میں اللہ کی اتنی پسندیدہ قوم تھی کہ اللہ نے اس قوم کے لۓ من و سلوی آسمان سے اتارا ۔

مگر اپنی مسلسل نافرمانی کے سبب یہ قوم اللہ کے اس غضب کی حقدار ٹہری کہ اللہ تعالی نے اس قوم کے لۓ اعلان فرما دیا کہ قیامت تک یہ لوگ دنیا کے کسی خطے میں بس نہیں سکیں گے ۔اللہ تعالی کے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اس قوم نے بزور طاقت نہ صرف فلسطین پر قبضہ کیا ۔بلکہ بدترین تشدد کے ذریعے یہاں مکین مسلمانوں کو اس علاقے سے بے دخل کرنا بھی شروع کر دیا ۔

ان ہی بہت سارے گھرانوں میں سے ایک گھرانہ لیلی خالد کا بھی تھا جو 9 اپریل 1944 میں فلسطین کے علاقے حائفہ میں پیدا ہوئیں ۔مگر صرف چار سال کی عمر میں اسرائلیوں کے ظلم و ستم کے سبب اس کے خاندان کو لبنان میں پناہ حاصل کرنی پڑی ۔15 سال کی عمر میں ہی لیلیٰ نے اپنے بھائی کے نقش قدم پہ چلتے عرب نیشنلسٹ موؤمنٹ میں شمولیت کی ۔

تحریک کی ایک سرگرم رکن ہونے کی حیثیت سے لیلی خالد نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ۔29 اگست 1969 ء کو لیلیٰ خالد نے ایک ہائی جیکنگ ٹیم کا حصہ بنتے ٹی ڈبلیو اے فلائٹ 840 کی ہوائی جہاز جو روم (اٹلی ) سے ایتھنز ( یونان )کی پرواز پہ تھا اُسے ہائی جیک کرتے دمشق (دمسکس) پہ اتارا ، کہا جاتا ہے کہ اس ہائی جیکنگ کے دوران لیلیٰ خالد نے مغوی پائلٹس کو حائفہ سے اُڑانے کاحکم دیا ، حائفہ دراصل لیلیٰ خالد کی جائے پیدائش تھی کہ جہاں وہ دوبارہ جا نہیں سکتی تھیں ، اس جہاز کو اتارنےاور تمام مغوی مسافروں کو رہا کرنے کے بعدبم سے اڑا دیا گیا ۔

اس واقعے میں پہلی دفعہ لیلی خالد کی تصاویر انٹرنیشنل میڈیا پر جاری ہوئیں ۔اور لوگوں کو پتہ چلا کہ فلسطین کی جنگ آزادی میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔اس کے بعد اسی مہینے میں لیلی خالد نے اسی قسم کے تین اور واقعات میں شمولیت اختیار کی یہاں تک کہ لوگوں نے اس مہینے کو بلیک ستمبر کے نام سے یاد کرنا شروع کر دیا ۔

اس کے بعد لیلی خالد نے خود کو برطانیہ کے حوالے کر دیا ۔ جس کے بعد قیدیوں کے تبادلے کے قانون کے تحت ان کو رہا کر دیا گیا ۔آج بھی دنیا کے ہر فورم پر فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلیوں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہیں ان کی اس جدوجہد کے سبب آج بھی یورپ والے ان کو ایک دہشت گرد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کو اپنے علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے ۔

مگر مسلمان ممالک میں خصوصا پاکستان میں لیلی خالد کی حیثیت ایک رول ماڈل جیسی ہے ۔ ایک زمانے میں پاکستانی اپنی بچیوں کے نام لیلی خالد کے نام پر رکھنے پر فخر محسوس کرتے تھے ۔لیلی کی جدوجہد کا سفر ابھی جاری ہے ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیۓ جانے کے بعد اب پھر سب کی نظریں ان مجاہدین پر لگی ہوئی ہیں ۔

To Top