لاہور اور پشاور کے بعد اب لعل شہباز قلندر کا مزار بھی دہشت گردوں کے نشانے پر! ذمہ دار کون؟

یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ ہر پاکستانی یہ سوال خود سے پوچھ رہا ہے ؟ میں اور ہر فرد یہ سوال خود سے پوچھ رہا ہے کہ دہشت گردی کی اس فضا میں میں ان حالات میں دعا کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں؟ میں کیسے اپنی اس پاک سرزمین کو بچاؤں؟ میں کیسے ان معصوموں کے زخموں پر مرہم رکھوں؟ میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں۔

جو کرنا ہے یا تو بھٹو کرۓ گا یا پھر پٹواری ۔سیہون شریف میں زائرین پر ہونے والے حملے اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی فضا نے ہم سب کو ایک غیر یقینی کی فضا میں قید کر لیا ہے ۔ کسی کو یقین نہیں کہ صبح گھر سے نکلنے کے بعد وہ شام کو محفوظ گھر واپس جا سکے گا یا نہیں۔

بھٹو زندہ ہے تو نظر کیوں نہیں آتا ؟ پٹواریوں نے موٹر وے تو بنا دیا مگر اس پر چلنے والی ایمبولنس تو نہیں دی نا ، البتہ دہشتگردوں کو سہولت مل گئی اس موٹر وے سے  اپنا کام کر کے تیزی سے فرار تو ہو سکتے ہیں ۔ میں کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کروں ؟ گناہ گار کون ہے ؟ ذمہ دار کون ہے ؟ وزارت داخلہ جو اپنا فرض مناسب طریقے سے ادا نہ کر سکی اور دہشت گرد ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دنددناتے پھر رہے ہیں ۔

یا محکمہ اوقاف جو کہ چندے کی رقمیں تو وصول کرتی ہے مگر مزار کے تحفظ کے لۓ کچھ نہ کر پائی ۔ وزارت صحت جو اس علاقے میں ایک بھی فعال ہسپتال قائم نہ کر پائی ۔ شائد کہ کچھ لوگ بر وقت علاج کے سبب بچ جاتے یا پھر وزیر اعلی جنہوں نے یہاں کے لوگوں کے ووٹوں سے الیکشن جیتا تھا اور پھر سیہون جا کر خبر تک نہ لی ۔

2

ہم غلطیوں کو قبول کرنے کے بجاۓ تاویلیں دینے کے موسم میں قید ہیں ۔دہشتگردی کی اس فیکٹری کو بند کیوں نہیں کیا جاتا جہاں ایسے کچے اور معصوم ذہنوں کو تیار کیا جاتا ہے جو اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتے ہیں ۔اور کافروں کو مار کر جنت میں جانا چاہتے ہیں ۔ دنیا کا آسان ترین کام یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جانا ہے کہ دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہیں ۔یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ بیرونی ہاتھ سب کچھ آپ کے اپنے ہاتھوں سے یہ سب کرواتے ہیں ۔

خودکش بمبار کے سہولت کار کوئی اور نہیں آپ ہی کے ہم وطن ہوتے ہیں ۔وہ آپ ہی کے گھروں میں ٹھہرتے ہیں ۔آپ ہی کا پانی پیتے ہیں اور آپ ہی کی غذا سے مستفیض ہوتے ہیں ۔ہم میں سے کون ہیں ایسے لوگ جو ان کو یہ سب سہولتیں مہیا کرتے ہیں ؟ کیسے اتنے پتھر دل ہو جاتے ہیں کہ اپنی بہنوں بچوں اور بھائیوں کو مارنے کے لۓ، دہشت گردی کے لۓ مدد دینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔

6

سعودیہ میں جس انسان نے غلاف کعبہ کے سامنے خود سوزی کی کوشش کی اس کا سر  سرے عام قلم کر دیا گیا ۔ اس کو مثال بنا دیا گیا تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت کرنے کا سوچے بھی نہیں ۔ہم ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ ایسے ظالموں کو عبرت کا نشان کیوں نہیں بناتے ؟ کیوں  دہشت گردی کرنے والے خودکش بمبار کے ساتھیوں کو پکڑنے کے بعد بھی قانونی تقاضے پورے کرنے میں اتنا وقت لگا دیتے ہیں کہ ہماری یہ ذودفراموش قوم سب بھول جاۓ ۔

دہشت گردی کے خلاف اس ظلم کے ذمے داروں کو ذمہ داری قبول کرنی چاہۓ ۔اپنی مسند اقتدار کو چھوڑ دینا چاہۓ ۔اپنی کوتاہیوں کو قبول کرنا چاہۓ ۔اور دوسرے لوگوں کو موقع دینا چاہۓ تاکہ وہ میرے اس جلتے دیس کو بچا سکیں ۔

To Top