خیبر پختونخواہ میں شادی پر بیجا اخراجات کی پابندی کا بل پیش، پڑھئیے کون مخالفت کے ليے سامنے آگیا

شادی جو کہ ایک معاشرتی فریضہ بھی ہے اور مذہبی ذمہ داری بھی ، اس کے ساتھ ساتھ تقریب بہر ملاقات بھی ہے جو کہ بھولے بھٹکے عزیزوں سے مصروفیت کے اس دور میں ممکن ہو پاتی ہے ۔

ہر خاندان کی طرح ہمارے خاندان میں بھی پچھلے دنوں عزیزوں کے بیٹوں کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا شادی پشاور میں تھی لہذا تیاریوں کا آغاز بھی پشاور کی سردی کو مد نظر رکھتے ہوۓ کیا گیا ۔ پتہ چلا کہ تقریبات کا آغاز شادی کی تاریخ سے دس دن قبل سے ہو جاۓ گا ۔

1

چونکہ الحمد للہ مسلمان ہیں اس لۓ اللہ کے پاک نام سے سب سے پہلے فنکشن کا اہتمام قرآن خوانی کے نام سے کیا گیا۔ جس میں پورے خاندان کو مدعو کیا گیا تقریب کی مناسبت سے تمام لوگوں نے خوبصورت ہلکے رنگ کے ملبوسات زیب تن کۓ۔

گھر والوں نے بھی پلاؤ ، کباب ، ساگ اور چکن تکہ کے ساتھ ضیافت کا اہتمام کیا ۔ انتہائی سادہ اور پروقار تقریب تھی اور اس کے ساتھ ہی باقی کے دن کے پروگراموں کا بھی اعلان کیا گیا ۔

ان میں ایک دن لڑکے کے دوست اپنے دوست کی شادی کی خوشی میں مہندی لے کر آئیں گے اور رات بھر ہنگامہ کریں گے ایک دن لڑکے کے ننھیال والے اپنی خوشی کے اظہار کے طور پر ایک رات مہندی لائیں گے اور اس سے اگلے دن ددھیال والے یہ فریضہ انجام دیں گے ۔

اس کے بعد شادی کی باقاعدہ تقریبات کا آغاز ہو گا جن میں دو مہندیاں اور بارات ولیمہ اور پھر چوتھی کی دعوت شامل ہے ۔

6

سب سے اہم مرحلہ مہندی بارات اور ولیمے کے دن کے دلہن اور دولہے کے ملبوسات کا تھا۔ دونوں جانب سے بھرپور تیاری کی گئی تھی بارات کے جوڑے کی قیمت اگر اسی ہزار تھی تو ولیمے کے جوڑے کی قیمت ایک لاکھ تک جا پہنچی تھی ۔

ہر آنے والی خاتون سب سے پہلے آگے بڑھ کر دولہے اور دلہن کے لباس دیکھ کر اپنی راۓ کا اظہار کر رہی تھیں ۔

ابھی اس شادی کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ کے پی کے گورنمنٹ کی جانب سے ایک بل پیش کرنے کی باتیں شروع ہو گئیں جس میں شادی کے اخراجات کا تخمینہ 75 ہزار تک کی پابندی لگوائی گئی ہے ۔

7

میں صرف یہ سوچ رہی ہوں کہ اس بل پر کیسے عمل درآمد ہو پاۓ گا ۔ سرحد کے گھروں کی اونچی اونچی دیواروں کے پیچھے کیا ہو رہا ہے حکومت کیسے پتہ لگا پاۓ گی ۔ خواتین کے پردے اور چار دیواری کے تحفظ کے نام پر اس طرح کی تقریبات کا راستہ کیسے روک پائیں گے؟

صرف بل پیش کرنے سے تعریف اور توصیف کے ڈونگروں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اس کو عملی طور پر نافذ کرنا وہ بھی کے پی کے جیسے بند علاقے میں بظاہر ناممکن نظر آرہا ہے ۔ کے پی کے کی حکومت کے لۓ یہ بھی ایک چیلنج ہے کہ شادی کے اس بل کو صرف منظور نہ کرواۓ بلکہ ایسی قانون سازی بھی کرے کہ یہ نافذ العمل ہو کر غریبوں کو حقیقی فائدہ پہنچا سکے ۔

خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے،وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

To Top