چند پلوں کی حرام محبت کے تحفے کراچی کے کوڑے کے ڈھیر سے دریافت، معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر لوگ سراپا احتجاج

کوڑا اس چیز کو کہا جاتا ہے جو گندہ فالتو اور استعمال شدہ ہوتا ہے ۔ اس متعفن ڈھیر کے قریب سے گزرتے ہوۓ لوگ اپنے ناک پر کپڑا رکھ لیتے ہیں کہ اس کا تعفن ان کے اعصاب پر گراں گزرتا ہے ۔ کوڑے کے ڈھیر میں صرف فالتو اور غیر ضروری چیزوں کا ہی انبار ہوتا ہے جو کہ کسی کے کام کی نہیں ہوتیں ۔یہ دوحقیقت آوارہ کتوں ،مکھیوں اور جراثیموں کا بسیرا ہوتا ہے ۔


مگر کراچی کے مرکز صدر میں تاج کمپلیکس کے سامنے موجود کچرے کے ڈھیر سے جو کچھ گزشتہ دن برآمد ہوا اس نے پاکستانیوں کے چہرے پر ایسی کالک مل دی ہے جس کو صاف کرنا ممکن نہیں اور اس نے ہر با ضمیر انسان کا سر شرم سے جھکا دیا ہے ۔

کوڑے دانوں سے نوزائدہ بچوں کی لاشوں کا ملنا کوئی نئی بات نہیں ہے کمزور لمحوں کا شکار کوئی بھی بن بیاہی ماں اپنے گناہ کو معاشرے سے چھپانے کے لیۓ اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو آوارہ کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں جن کو یہ جانور نہ صرف بھبھوڑ کر اپنی بھوک مٹاتے ہیں بلکہ کسی جوڑے کی چند لمحوں کی بھوک کی سزا بھی انہی معصوموں کو دیتے ہیں

مگر تاج کمپلیکس کے کوڑے دان سے ملنے والی یہ لاشیں کسی ماں کی پتتھر دلی کے داستان کے ساتھ ساتھ اکٹھے تین لاشوں کا ملنا یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ اس عمل میں کوئی ایسا ادارہ ملوث ہے جو معمولی منفعت کے بدلے میں مازؤ کو غیر قانونی ابارشن کی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے ۔

اس کے بعد پیدا ہونے والے ان بچوں کے ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری بھی چند پیسوں کے عوض خود ہی لے لیتا ہے ۔ انسانوں کے بھیس میں چھپے یہ حیوان ان معصوم بچوں کو جو ہو سکتا ہے پیدا ہوتے وقت زندہ ہوں ان کو کوڑے کے ڈھیر پر مرنے کے لیۓ چھوڑ دیتے ہیں

اسلامی نقطہ نظر سے زنا کا شمار گناہ کبیرہ میں ہوتا ہے اور اس تعلق ے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو ولد الحرام تصور کیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ زنا کے گناہ کے بعد ایک انسانی جان کو اس طرح مار دینا بھی قتل کے زمرے میں آتا ہے محبتوں کا دعوی کرنے والے جوڑے محبت کے نام پر گناہ کرنے کے بعد قتل جیسے گناہ میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں

اس طرح کے غیر قانونی عمل میں ملوث ہسپتال والے بھی اس جرم میں اتنے ہی شریک ہوتے ہیں جتنے کہ زنا میں ملوث یہ جوڑا ہوتا ہے ۔اتنے بڑے جرائم کے سامنے آنے کے باوجود ماضی کی طرح اس بار بھی حکام کی مجرمانہ خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ ایسے اداروں کے خلاف اگر اقدامات نہ کیۓ گۓ تو وہ ملک اے اندر بے حیائی کو فروغ دینے کا سبب بنیں گے لوگ اسی طرح زنا کرتے رہیں گے اور اس کے نتیجے میں بچوں کو کوڑے کے ڈھیر کی زینت بناتے رہیں گے

To Top