کیا آپ جانتے ہیں کہ کراچی کی مشہور سڑکوں کے نام کس نے رکھے؟

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، اس شہر کی وسعت کے سبب اس کے ذرائع آمدورفت خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ پپلک ٹرانسپورٹ کا سب سے اہم ذریعہ بس ہے جو کہ زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر کی مرہون منت ہے۔

کراچی کی بسیں اور اس کے سفر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور شعراء نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے

چلی تو مسافر اُچھلنے لگے ہیں
جو بیٹھے ہوئے تھے وہ چلنےلگے ہیں
قدم جا کے ٹخنوں سے ٹلنے لگے ہیں
جو کھایا پیا تھا اُگلنے لگے ہیں
تماشا سرِ رہ گزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جو کالر تھا گردن میں، ’’لر‘‘ رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں ’’ٹر‘‘ رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

(سید ضمیر جعفری مرحوم)

معاملہ یہیں تک نہیں ہے بلکہ اس سفر کے دوران ایک اہم شخصیت بھی ہوتی ہے جس کو بس میں سفر کرنے والے بخوبی جانتے ہیں اور جس کا کام ذیادہ سے ذیادہ افراد کو بس میں ایڈجسٹ کر کے ٹھونسنا ہوتا ہے اور وہ ہیں جناب کنڈیکٹر صاحب۔

اپنی زبان دانی کے سبب وہ ہر اسٹاپ کی آمد کی اطلاع اسٹاپ کے آنے سے پہلے اعلان کی صورت میں دیتے ہیں تاکہ مسافر اپنی منزل کے آنے سے قبل ہی اترنے کے لۓ تیار ہو جاۓ جو وقت گزرنے کے ساتھ اس جگہ کے نام میں تبدیل ہو جاتا ہے آج ہم آپ کو ایسی ہی جگہوں کے ناموں کے بارے میں بتائیں گے جس کے خالق کوئی اور نہیں بلکہ بسوں کے کنڈیکٹر ہیں

ناگن چورنگی

1

پکی سڑک کے اس چوراہے کے قریب سے کسی زمانے میں لوگوں نے ایک ناگن پکڑی تھی اسی دن سے اس چورنگی کا نام کنڈیکٹروں نے  ناگن چورنگی ڈال دیا

ڈسکو موڑ

2

یوپی موڑ سے شاہ محمد قبرستان کی طرف جاتے ہوۓ صدیقی مارکیٹ کے قریب چھوٹا سا چوراہا ڈسکو موڑ آتا ہے کافی سال پہلے اس چوراہے سے مڑنے والی بسیں سڑک کے ٹوٹے ہونے کے سبب ہلنے جلنے لگتی تھیں جس پر کنڈیکٹر مذاقا کہا کرتے تھے کہ یہاں بس ڈسکو کرنے لگتی ہے اسی دن سے اس موڑ کا نام ڈسکو موڑ ڈال دیا گیا

انڈا موڑ

3

نصرت بھٹو کالونی کی سمت  جانے والی سڑک اور شاہراہ نور جہاں کے سنگم پر انڈا موڑ واقع ہے 1980کی دہائی میں اس جگہ بہت سے مرغی خانے تھے جہاں سے انڈے سپلائی کئے جاتے تھے لہذا یہ موڑ انڈا موڑ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

کریلا اسٹاپ

4

پاور ہاؤس چورنگی کے بعد یہ اسٹاپ واقع ہے۔ اس کا یہ نام اس طرح پڑا کہ یہاں پر ایک شخص کی دکان تھی جس کو علاقے کے لوگ گریلا کہہ کر چڑاتے تھے وقت کے ساتھ وہ بندہ دکان چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا مگر اپنا یہ نام یہیں چھوڑ گيا

 

To Top