کیا آپ جانتے ہیں کہ حدیث نبوی کے مطابق کن اوقات میں مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے

انسان اللہ کی بنائی گئی مخلوق ہے جس کی فطرت میں قیام نہیں ہے ۔اس کی خواہشات کی کوئي حد نہیں ہے ۔ایک خواہش پوری ہو جاۓ تو اس کو اس سے اگلی خواہش کی تکمیل کا جنون ہو جاتا ہے ۔ اوروہ اپنے رب کے دربار میں سوالی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔اور دعا مانگ مانگ کر اپنی من پسند مراد اپنے سوہنے رب سے  پا لیتا ہے ۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نہ صرف اللہ سے دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تما م عوامل بھی بتا دیۓ ہیں جو کہ دعا کی قبولیت اور مسترد ہونے کا سبب بن سکتے ہیں ۔مثلا ہمارے نبی نے فرمایا کہ حرام کمائی کھانے والے کی دعا قبول نہ ہوگی ۔ یا پھر دوسرے کو نقصان پہنچانے والی دعا قبول نہ ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پیارے نبی نے اپنی امت کو وہ خصوصی اوقات بھی بتا دیۓ ہیں جن اوقات میں انسان کی دعائیں اللہ کی بارگاہ میں لازمی قبولیت پاتی ہیں اور جن کے متعلق مستند احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے ۔

تہجد کے اوقات میں مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے

تہجد کے وقت سے مراد رات کا آخری پہر ہے ۔اس وقت کی نیند سب سے گہری اور نہ ٹوٹنے والی ہوتی ہے ۔مگر جب کوئي بندہ اس وقت میں اپنی نیند کی قربانی دے کر اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑا ہوتا ہے ۔اس سے دعا مانگتا ہے ۔ اس سے فریاد کرتا ہے تو حدیث کے مطابق اس کا رب ضرور سنتا ہے اور بندے کی خواہش کو ضرور پورا کرتا ہے

سجدہ کی حالت میں مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے

انسان جس پل سجدے کی حالت میں ہوتا ہے اس پل میں وہ اپنے جسم کے سب سے بلند اور محترم عضو یعنی پیشانی کو اللہ کے بارگاہ میں جھکا کر زمین سےلو لگا رہا ہوتا ہے اللہ کو اپنے بندے کی یہ ادا یہ عاجزی اتنی پسند آتی ہے کہ وہ اپنے بندے کی اس حالت میں مانگی گئي ہر دعا پوری کر دیتا ہے ۔

اذان کے دوران مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے

اذان سے مراد وہ پکار اور بلاوہ ہے جو کہ اللہ کی جانب سے اس کے حکم سے انسانوں کو نماز کے لۓ دیا جاتا ہے ۔جب انسان اللہ کے اس بلاوے پر لبیک کہتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے تو اللہ بھی ان اوقات میں انسان کی دعا نہ صرف سنتا ہے بلکہ اس کو پورا بھی کرتا ہے ۔

فرض نماز کے بعد مانگی گئی دعا پوری ہو گی

اللہ نے انسانوں پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض قرار دی ہیں ۔ نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے اور اس کی فرضیت کے متعلق واضح احکامات قرآن وسنت میں موجود ہیں ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان اوقات میں ماںگی گئی دعا بارگاہ خداوندی میں قبولیت پاتی ہے ۔

بارش کے بعد مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے

بارش اللہ پاک کی وہ رحمت ہے جو کہ اس پیاسی زمین کو سیراب کرتی ہے ۔بنجر زمین کی کوکھ لہلہاتے سبزے سے بھر دیتی ہے ۔چرند پرند غرض ہر مخلوق کے لۓ خوشی کا سبب اور رحمت بن کر برستی ہے ۔ ایسے حالات میں اللہ تعالی اس مخلوق کو کیسے بھول سکتا ہے جس کو اس نے اشرف المخلوقات کے عہدے پر فائز کیا ہے ۔تو ان اوقات میں  اللہ کی رحمت بندوں پر برس رہی ہوتی ہے ۔

سفر کے وقت دعا قبول ہوتی ہے

نیک نیتی اور حق کے راستے پر جانے والے مسافر کی ہر دعا اللہ قبول کرتا ہے ۔کیونکہ اس وقت مسافر درحقیقت اللہ کا مہمان ہوتا ہے

افطار کے وقت مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے

روزہ کی حالت میں اللہ کی خاطر بندہ جب بھوک پیاس برداشت کرتا ہے تو وہ اللہ کے بہت قریب ہوجاتا ہے ۔اس وقت اللہ فرماتا ہے کہ اس کو اس کی عبادت کا اجر میں خود دوں گا ۔ افطار کا وقت اللہ نے اس روزے دار کے لۓ نہ صرف روزہ کھولنے کا رکھا ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس انعام و اکرام کا بھی رکھا ہوتا ہے جو اللہ نے بندے کو دینے ہوتے ہیں ۔ اس میں سے سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ اس وقت مانگی گئی دعا قبول ہوتی ہے ۔

درود شریف پڑھنے کے بعد دعا قبول ہوتی ہے

درود شریف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ واحد دعا ہے جو کسی بھی وقت مانگی جاۓ اللہ اس کو ضرور سنتا ہے اسی وجہ سے  اول و آخر درود شریف پڑھ لینے سے دعا بھی اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا لیتی ہے

اللہ تعالی ہماری جو التجا سن کن پوری کر دیتا ہے ہمیں اس پر اللہ کا شکر اداکرنا چاہۓ اور جو درخواست قبول نہ ہو اس کے لۓ اس بات کو سمجھ لینا چاہۓ کہ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اس کام کے نہ ہونے میں بھی ہمارے لۓ کوئی بہتری ہو گی ۔

 تابوتِ سکینہ اور ہیکل سلیمانی کا تاریخی پس منظر،درحقیقت اسکی کہانی کیا ہے؟

To Top