نا آسودہ خواہشات ، گناہ اور ثواب کا گورکھ دھندہ

خواہشات کی ناآسودگی ہمیشہ ایک خلش کو جنم دیتی ہے اس کی  زندگی بھی اسی طرح چھوٹی چھوٹی بہت ساری ناآسودہ خواہشات سے بھری ہوئی تھی ۔بچپن میں اچھے کپڑے ،اچھے جوتے پہننے کی خواہش جوانی میں اچھے گھر اور اچھی گاڑی میں تبدیل ہو گئی تھی ۔

اس کے گھر اس کی ماں سفید پوشی کا بھرم رکھتےہوۓ کبھی تو بڑی بہنوں کے پرانے کپڑے اس کو نۓ بنا کر پہنا دیتی کبھی بن کباب میں دال کے کباب بنا کر ان کو برگر کا نام دے کر سب بہن بھائیوں کو کھلا دیتی اور اس کے باقی سارے بہن بھائی اس کو خوشی خوشی کھا لیتے ۔

مگر وہ اس طرح بہلنے والوں میں سے نہ تھی ۔ اس کے خواب اس کو ان سب چیزوں سے بہلنے بھی نہیں دیتے تھے ۔ وہ جب سرکاری اسکول بھی جاتی تو سارے راستے اس کی نظر سڑک پر چلنے والی گاڑیوں اس میں بیٹھے ہوۓ خوبصورت لباس میں عورتوں اور بچوں پر ہوتی ۔

وہ اللہ سے شکوہ کرتی کہ آخر اللہ نے یہ سب اس کو کیوں نہیں دیا اس کی سفید رنگت سنہرے بال اس کے اندر یہ فخر پیدا کرتے کہ وہ ان سب سے الگ ہے وہ جہاں رہتی ہے وہ اس جگہ کی نہیں ہے ۔ اس کو اپنی صورت پر بہت غرور تھا اسی غرور کے ساتھ اس نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کو لگا کہ اس کے خوابوں کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے

اس نے مختلف ایڈورٹائزمنٹ ایجنسیوں میں جا کر نوکری کی درخواستیں دی تھیں کیوںکہ اس کو لگتا تھا کہ یہی وہ شعبہ ہے جہاں اس کے خوابوں کی تکمیل ہو سکتی ہے اگرچہ اس کے ماں باپ دونوں نے اس کو بہت روکا تھا مگر اس نے ان کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا تھا کہ بچپن تو سسک سسک کر گزار دیا ہے مگر اب جوانی وہ ایسے نہیں گزار سکتی


اس کی صورت دیکھ کر اس کو چھوٹے موٹے کام بھی ملنا شروع ہو گۓ تھے مگر اب بھی بہت ساری خواہشیں ناتمام تھیں ۔ اس کو اب جس ڈائریکٹر نے اپنے اشتہار کے لیۓ کاسٹ کیا یہ اس کے ساتھ اس کا تیسرا اشتہار تھا ۔ اس کے ساتھ اس کی بے تکلفی بڑھتی جا رہی تھی ۔

ایک دن اس ڈائریکٹر نے اس کو آفر کی کہ وہ ایک ثقافتی طائفہ لے کر دبئی جا رہا ہے جہاں پر اس کے ساتھ اور بھی اداکار ہوں گے ان کو اسٹیج پر پرفارم کرنا ہو گا اس کے ساتھ ساتھ کچھ خاص لوگوں کو خوش بھی کرنا ہوگا جس کے بدلے میں ایک بڑی رقم حاصل ہو سکتی ہے اور اگر اس نے اچھا کام کیا تو یہ موقع اس کو بار بار مل سکتا ہے

اس کے پاس اپنی تمام خواہشات کی تکمیل کا یہی راستہ تھا وہ جانتی تھی کہ یہ جائز نہیں ہے مگر وہ اب مذید اپنی خواہشات کے حصول کے لیۓ ترسنا نہیں چاہتی تھی اسی لۓ اس نے لرزتے ہوۓ ہاتھوں سے اپنی عزت کی نیلامی کے کانٹریکٹ پر سائن کر لیۓ

اس کے بعد ذلت کے ایک اذيت ناک راستے کا آغاز ہو گیا جس میں بظاہر تو وہ بہت فائدے میں تھی کیوں کہ اس سے ملنے والے پیسوں سے اس نے ایک بڑا گھر لے لیا اور ایک گاڑی بھی مگر اس کے بہن بھائيوں اور ماں باپ نے اس سے منہ موڑ لیا ۔

جس جوانی کو بیچ کر اس نے یہ گاڑی بنگلہ حاصل کیا تھا وہ بھی اب وقت کے ساتھ ڈھلتی جا رہی تھی اب اس کو پیار کرنے والے کسی رشتے کی تلاش تھی مگر اس کو خریدنے کے لیۓ تو ہر کوئی تیار ہو جاتا تھا مگر اس سے پیار کرنے کے لیۓکوئی بھی تیار نہ ہوتا ۔

اس دن تو حد ہی ہو گئی جب اس نے اس ڈائریکٹر سے کہا کہ اب وہ مذید اس گناہ کی زندگی کو نہیں گزارنا چاہتی اور اس کام کو بند کر دینا چاہتی ہے مگر اس ن کہا کہ اس کام میں آنے کا راستہ تو ہے مگر واپسی کے راستے سارے بند ہوتے ہیں اور اب اس کو تب تک یہ کام جاری رکھنا پڑے گا جب تک اس کے گاہک اس کی ڈیمانڈ کرتے رہیں گے

ایک دن جب اس کی طبیعت خراب تھی وہ ڈاکٹر کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے اس کو کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیۓ ان ٹیسٹوں کے نتیجے سامنے آنے پر اس کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔اس کو ایڈز ہو گیا تھا ۔ پیسہ کمانے کے لیۓ اس نے جس آسان راستے کا انتخاب کیا تھا اس راستے نے اس کو برباد کر ڈالا تھا ۔

اب جب اس کے پاس پیسہ تھا مگر اس پیسے سے وہ نہ تو اپنی صحت خرید سکتی تھی اور نہ ہی زندگی کے کچھ پل ۔ اس تنہائی ميں وہ لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہی تھی جو بھی اس کی بیماری کے بارے میں سنتا دوبارہ پلٹ کر اس کی جانب منہ نہ موڑتا

اب اس کے پاس واحد سہارہ اس کی ماں ہی تھی جس دن کانپتے قدموں کے ساتھ اس نے اپنے پرانے محلے میں قدم رکھا تو اس نے وہی پرانے کپڑے پہن رکھے تھے جو اس کی ماں نے اپنے ہاتھوں سے اس کے لیۓ سیۓ تھے ۔

جب گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس دروازے کو کھولنے والا کوئی اور نہیں اس کی ماں ہی تھی اس نے زور سے ماں کہا اور اس کے بعد اس کو کچھ ہوش نہ رہا اپنی ماں کی آغوش میں اس نے زندگی کی آخری سانسیں لیں اور دم توڑ دیا ۔

اس دن اس گھر سے ایک جنازہ نہیں اٹھا تھا بلکہ اس دن اس گھر سے دو جنازے اٹھے تھے جس پل اس نے اپنی ماں کی آغوش میں دم توڑا اس کی ماں کا دل بھی اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور ہمیشہ کے لیۓ خاموش ہو گیا ۔

 

 

To Top