خوشاب میں دو سالہ حسان کی لاش پر کیسے نشانات تھے کہ جن کو دیکھ کر لوگ توبہ توبہ کرنے لگے

کسی بھی والدین کے لیۓ ان کا بچہ ان کی خوشیوں کا محور ہوتا ہے ۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر رکھیں ایسی ہی کچھ خواہشات خوشاب کے رہائشی نجم اللہ خان کی بھی تھی ۔ نجم اللہ خان خود فیصل آباد میں تعلیم کے لیۓ رہائش پزیر تھے ۔

جب کہ ان کا خاندان خوشاب میں تھا ۔ننھا حسان جس نے اپنی زندگی کی صرف دو بہاریں ہی دیکھی تھیں ابھی صرف پاؤں پاؤں چلنے کے قابل ہوا تھا ۔ ابھی تو اس نے ٹھیک سے بابا کہنا بھی شروع نہیں کیا تھا ۔ ایک دن اس معصوم کے باپ کو اطلاع ملی کہ اس کا بیٹا لاپتہ ہو گیا ہے ۔

ان حالات میں جب کہ ہر جانب سے بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات کی گونج سنائی دے رہی ہے ایک باپ کے لیۓ اس کے معصوم بیٹے کا لاپتہ ہونا کسی قیامت سے کم نہ تھا ۔ اس نے اپنے بیٹے کی تلاش کے لیۓ سب جتن کرنے شروع کر دیۓ اور اس کے بعد اس کو اپنا بیٹا حسان مل گیا ۔

علاقے کے قبرستان میں پائی جانے والی ننھے حسان کی لاش جس حالت میں پائی گئی اس نے انسانیت پر سے یقین کا خاتمہ کر دیا ۔دو سالہ ننھے حسان کے جسم پر پاۓ جانے والے نشانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی درندے نے اس کو بری طرح جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اس کے بعد اس کی لاش کو قبرستان میں پھینک دیا گیا ۔

 

کسی بھی والدین کے لیۓ یہ گھڑی قیامت سے کم نہیں ہوتی کہ ان کا وہ بچہ جس کو انہوں نے ناز و نعم سے پالا ہوتا ہے اس بدترین اور اذیت ناک موت کا شکار ہو ۔دن بدن ہونے والے یہ واقعات ہمارے بچوں کے لیۓ اس معاشرے کو جس طرح غیر محفوظ بناتے جا رہے ہیں یہ ہم سب کے لیۓ کسی تازیانے سے کم نہیں ہے۔

شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور معصوم بچوں کے حوالے سے تو یہ ذمہ داری مذید بڑھ جاتی ہے کیوںکہ یہ بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں اگر یہ بچے اسی طرح ان درندوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے کے بعد کچرہ کنڈیوں یا قبرستانوں سے پاۓ جاتے رہے تو ہم آنے والے دور میں اپنی نئی نسل سے کیا امید کر سکتے ہیں ۔

To Top