خزیمہ نصیر کی آخری سانسوں کا سوال

ساری بات ہی سانسوں کی ہوتی ہے جب تک چلتی ہیں،خواہشوں کی ریلے میں بہاتی رہتی ہیں ۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ڈاکٹر سب سے پہلے زور زور سے رلا کے ان سانسوں ہی کو محسوس کرتا ہے ، اور اس کے بعد ساری زندگی چپ کرواتے گزر جاتی ہے۔ خزیمہ نصیر نے بھی جب پہلا سانس لیا ہو گا تو ہر سانس کے ساتھ آواز بلند کر کے رویا ہو گا تو اس کی ماں یا باپ نے اس کو اپنی آغوش میں چھپا لیا ہو گا ۔ اور اس کے بعد ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہو گا کہ وہ جب کسی تکلیف میں یا کسی دکھ میں روتا، اس کے آنسوؤں کو اس کی ماں اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہو گی۔

63e357ee3efa4a65906d45adde60f813-large

سمجھ نہیں آتا کہ جرمنی میں ہسپتال  کے کمرے میں زیادہ تکلیف ایک ایک سانس کھینچتے ہوۓ خزیمہ کو ہو گی یا اس کی ماں کو ، جو سیکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنے لعل کی اذیت کو خود پرمحسوس کر رہی تھی ۔ کتنا بے بس محسوس کرتا ہو گا اس کا باپ جو نہ بیٹے کی تکلیف کم کر سکتا ہو گا اور نہ ماں کے کلیجے کو ٹھنڑک پہنچا سکتا ہو گا ۔

خزیمہ نصیر نے ڈسکہ سے اپنی ریڈی میڈ کی دکان کو سمیٹ کر جب باہر جانے کا فیصلہ کیا ہو گا تو اس کے پیش نظر یقینا یہی خواہش ہو گی کہ وہ اپنے ماں باپ کو وہ سکھ دے سکے جو یہاں کام کرتے ہوۓ اسے بہت دور لگ رہے تھے ۔ اس کو کیا پتا تھا کہ جس شارٹ کٹ کا فیصلہ اس نے کیا وہ اس کی زندگی کا بھی شارٹ کٹ ہو گا ۔ پاک ایران بارڈر پر لگنے والی گولی کے زخم نے خزیمہ کو مستقل طور پر بخار میں مبتلا کر دیا تھا ۔

جرمنی آنے کے آٹھ نوماہ بعد ہی اس پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ وہ ہڈیوں کے کینسر کے آخری اسٹیج پر ہے۔ اس کے بعد ان ماں بیٹے کے لۓ اذیت کے لمبے سفر کا آغاز ہوگیا، خز یمہ نے واپس اپنی ماں کی آغوش میں آنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کاتب تقدیر کو کچھ اور منظور تھا ۔ اس کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی ۔ اس کی ماں اڑ کر اپنے لعل کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی مگر نہ جانے وہ کون سے ضابطے تھے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔

04

Source: www.cricbuzz.com

جو لوگ آخری ٹائم پر خزیمہ کے ساتھ تھے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس شدید سردی کے عالم میں بھی ہسپتال کے کمرے کی کھڑکی ایک پل کے لئے بند نہیں ہونے دیتا تھا ۔ شاید اس طرح وہ اس آسمان کو دیکھنا چاہتا ہو گا جس کی طرف نظریں اٹھاۓ اس کی ماں دن رات کے ہر ہر پل اس کے لئے دعا کرتی ہو گی۔

مرنے سے دو دن پہلے اس نے اشاروں سے نماز ادا کی اور پروردگار سے پتہ نہیں کیا مانگا تھا؟ اس اذیت سے نجات مانگی تھی یا اپنی ماں کی آغوش مانگی یا یہ دعا مانگی کہ جو دکھ میری ماں کو دیا ہے وہ کسی اور ماں کو نہ دینا ۔ 4 نومبر 2016 کو اس کی سانسوں نے خاموشی کے ساتھ اس کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ خود تو وہ ہر تکلیف سے آزاد ہو گیا مگر ماں کو ابھی بھی اپنے آخری دیدار کی امید اور آس سے باندھ گیا۔ ابھی تک اس کی لاش کو پاکستان نہیں بھیجا جاسکا ۔ کاش ارباب اقتار اس اذیت کو محسوس کر پائیں ۔

وطن کے ہیروز کو قوم کا سلام۔۔ سفید جھنڈے لہرا کر مسیحاؤں کو خراج تحسین

To Top