کشمیر کی آزادی کب ممکن ہوگی؟

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

کشمیر کی آزادی تک اُدھار قطعی بند ہے! کشمیر کی آزادی تک جنگ رہے گی، جنگ رہے گی، کشمیر بنے گا پاکستان، انشاالَّلہ انشاالَّلہ ! کشمیریوں سے رشتہ کیا ؟ لاالٰہ الَّا الَّلہ !

یہ بلندوبالا نعرے جو برسوں سے پاکستان کے طول و عرض ، میدانوں،وادیوں اور کوہساروں میں گونج رہے ہیں۔ذہنوں کے دریچوں پر دستک دیتے ہیں، اور ہمیں تاریخ کی راہدریوں پرسفر کرنے پرمائل کرتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہےکہ پاکستان کے ایک حصے (جسے آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھی کہا جاتا ہے)اور برطانیہ کے کچھ حصوں میں ہر سال ۵ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔

مجھے اپنے لڑکپن کے وہ لمحات یاد ہیں جب ہم مقامی سکولوں کے تقریری مقابلہ جات میں ‘کشمیر جسے اہلِ نظر جنتِ نظیر کہتے ہیں، جنت کسی کافر کو ملی ہے نا ملے گی’ جیسے نعروں سے نئے ولولے پیدا کیا کرتے تھے۔خیر، میں یومِ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ایک بات ضرور اپنے قارئین کو بتانا چاہوں گا اور وہ یہ ہے کے اس تحریک کی ابتدا ۵فروری ۱۹۹۰ کو جماعتِ اسلامی نے کی، میں ان باتوں کی طرف نہیں جانا چاہتا کہ اغراض ومقاصد اور اہداف کیا تھے؟ مزید یہ کہ ۲۸ سال کی اس طویل مسافت کے بعد انکا حصول ممکن ہو سکا یا نہیں۔

البتہ اس حوالے سے کشمیریوں کی مظلومیت پر کوئی دوسری رائے نہیں۔ اسے ستم ظریفی کہیے یا بد نصیبی، کشمیریوں کو سرحد کے دونوں جانب کوئی “خاطر خواہ مقام “ نہیں مل سکا۔ آج بھی ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کا وزیر اعلٰی دہلی میں بیٹھے ایک سیکریٹری یا وفاقی وزیر کو جواب دہ ہے ۔

کچھ ایسی ہی حیثیت پاکستان کے زیراثر کشمیر کے معاملات کی ہے۔ اور ایک اسلامی جمہوریہ کے شہری ہونے کی حیثیت سے اپنی شہ رگ یعنی کشمیر کی سر سبز لہلہاتی وادیوں ، جھرنوں اور کوئلوں کی روح میں سرائیت کرتی موسیقی اور مہکتے پھولوں کی تروتازگی میں یقین رکھتے ہیں تا کہ کشمیریوں کے مفادات میں ۔

ہم کس قدر منتشر المزاجی کا شکار ہیں کہ تاحال عالمی برادری میں اپنے تشخص ، اور بقا و سالمیت کی جنگ میں ایک سوالیہ نشان کی مانند ہیں ۔ اور ہمارے جذبے کشمیر کی آزادی کی بات کیے بغیر کہیں تھمتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی فاقہ کش اور معاشی بدحالی کا شکار شخص یہ فیصلہ کر لے کہ وہ لوگوں کو معاشی بحران سے نکالنے میں معاون ثابت ہو گا۔

اگر ہمیں کشمیریوں کی خیر خواہی کا زعم ہے تو ہمیں انہیں مکمل آزادی دینی پڑے گی۔ عین ممکن ہے کہ کشمیری اپنا موقف ہم سے بہتر ، واضح اور مدلل انداز میں پیش کر سکیں۔ اور بھارتی ریاست کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھا سکیں۔قوی امید یہ ہے کہ وہ عوامی جمہوریہ چین سے اپنا حق مانگنے کے لئے بھی اٹھ کھڑے ہوں۔

To Top