وہ جس کے لئے کراچی والے پلکیں بچھاۓ بیٹھے ہیں ۔اس کے آنے کی آہٹ کراچی والوں کے شب و روز کو تبدیل کر دیتی ہے ۔ جی جی بات ہورہی ہے سردی کی۔
اتنا انتظار اور اہتمام تو کوئی بہت اپنے کے آنے کا کیا جاتا ہے جتنا اہتمام کراچی والے سردی کی آمد کا کرتے ہیں. اس کی آمد کے خیال سے سب سے پہلے تو رضائیوں، کمبلوں اور گرم کپڑوں کو دھوپ اور ہوا دلوائی جاتی ہے۔ اس کے بعد باری آتی ہے گھر کی سیٹنگ بدلنے کی، کیوںکہ سردی کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں مشرقی جانب سے ٹھنڈی ہواؤں کے چلنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جبکہ گرمیوں میں کراچی کے باسی اپنا رخ مغرب کی جانب رکھتے ہیں تا کہ سمندری ہواؤں سے فیضیاب ہو سکیں۔
یہ سب ہونے کے بعد مرحلہ آتا ہے سردی کے پکوانوں کی تیاری کا، خواتین ان کے لئے بھی ڈرائی فروٹ وغیرہ منگوا کے رکھ لیتی ہیں اور اگر کسی کے رشتے دار پشاور یا کو ئٹہ میں ہوں تو ان کو ڈرائی فروٹ کے ساتھ ساتھ گڑ بھی سوغات کی صورت میں مل جاتا ہے۔
رنگ رنگ کی کولڈ کریمیں بھی کراچی میں سردی کی آمد کے ساتھ فروخت ہونا شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ کراچی کی سردی بہت خشک ہوتی ہے اس لئے کراچی والے اس یقین کے ساتھ کہ وہ ان کا رنگ کالا ہونے سے بچاۓ گی پوری سردیاں الگ الگ برانڈ کی کولڈ کریمیں لگاتے رہتے ہیں۔
ان سارے اہتمام کے ساتھ کراچی والے ایک آس لگا کے بیٹھ جاتے ہیں کہ نجانے کب ٹھنڈ آجاۓ ، ہر روز رات اپنے پیروں کی جانب کمبل تہہ کر کے رکھتے ہیں کہ اگر رات کو اچانک ٹھنڈ آگئی تو کہیں کمبل استعمال کرنے کا چانس مس نہ ہو جاۓ۔ صبح دفتر کے لئے نکلنے لگو تو بیگم ہاتھ میں مفلر اور ٹوپی تھامے کھڑی ہوتی ہیں کہ ابھی تو سردی نہیں مگر شام تک اگر ہو گئی تو کیا کریں گے ۔
ان تمام امیدوں اور مایوسیوں کے ساتھ کراچی والوں کی سردیاں بغیر آۓ واپس چلی جاتی ہیں ۔
کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے کپتان کی ٹائیگر فورس میدان میں اترے گی