کیا میں نے غلط کیا؟ ایک قاتل ماں کا معاشرے سے سوال

میں ایک مشرقی لڑکی تھی مجھے اندازہ تھا کہ میں جب گھر سے نکلتی ہوں تو میرے باپ بھائي کی عزت کی ردا میرے سر پر ہوتی ہے اور میں اس کے تحفظ کی امین ہوتی ہوں ۔ میں بہت دن سے نوٹ کر رہی تھی کہ میرے کالج کے راستے میں ایک لڑکا تنہا کھڑا ہوتا اس بات کا انتظار کرتا کہ میری بس آۓ اور میں اس میں بیٹھ کر روانہ ہو جاؤں ۔

میرے بس میں بیٹھتے ہی وہ بھی اپنی موٹر سائکل پر نہ جانے کہاں چلا جاتا ۔ اسی طرح چھٹی کے ٹائم بھی وہ اسٹاپ پر مجھ سے پہلے موجود ہوتا میرے بس سے اترتے ہی مجھے دیکھتا ۔اس نے کبھی میرا پیچھا کرنے کی یا مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ لہذا میں نے بھی کبھی اس کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا اب تو مجھے بھی اس کو دیکھنے کی عادت سی ہو گئی تھی ۔

اس دن میرا پرچہ تھا ۔جب میں اسٹاپ پر آئی تو مجھے پتہ چلا کہ کسی سبب بسوں کی ہڑتال ہے ۔میرے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ میں رکشہ کروا لیتی اور نہ ہی اتنا ٹائم تھا کہ میں واپس گھر جا کر پیسے لے کر آسکتی ۔پیپر کی ٹینشن نے مجھے حواس باختہ کردیا تھا ۔بے بسی کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو آگۓ ۔

اس پل وہ لڑکا میری طرف بڑھا اور اس نے مجھے کالج پہنچانے کی پیش کش کی ۔ میرے پاس اس وقت اس کے ساتھ بیٹھنے کے اور کوئی حل نہیں تھا میں نے اس کی بات مان لی اور اس کے ساتھ موٹر سائکل پر بیٹھ گئی ۔ اس نے مجھ سے سارے راستے کوئی بات نہ کی ۔کالج کے سامنے لے جا کر بائک روکتے ہوۓ اس نے کہا کہ چھٹی میں بھی وہ آجاۓ گا اور میں اسے کچھ کہہ نہ سکی یہاں تک کہ اس کا شکریہ بھی ادا نہ کر سکی ۔

پیپر کے بعد جب میں باہر نکلی تو وہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھا ۔ میں اس کے پیچھے بیٹھی اور اس نے مجھے اسٹاپ تک چھوڑ دیا ۔ گھر واپسی پر میرا ارادہ تھا کہ اس سارے  واقعے سے امی کو آگاہ کر دوں گی مگر میں اپنے اندر اتنا حوصلہ نہ پا سکی کہ امی کو اس بارے میں بتا سکوں ۔

اس رات جب میرا بھائی گھر آیا تو اس کے تیور بہت بدلے ہوۓ تھے ۔اس نے امی ابو کے سامنے مجھے بلا کر بہت سختی سے پوچھا کہ اس کو اس کے کسی دوست نے بتایا ہے کہ میں کسی اجنبی کے ساتھ بائک پر بیٹھ کر کالج جانے کے نام پر آوارہ گردی کرتی ہوں ۔ میں نے اپنی صفائی میں اسے سب کچھ بتانا چاہا مگر کسی نے میری کوئی بات تسلیم نہیں کی ۔

ابو نے فیصلہ سناتے ہوۓ میرا کالج جانا بند کروا دیا ۔ میں بہت روئی چلائی مگر کسی نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا ۔ اس کے بعد فوری طور پر پہلے آنے والے رشتے کو قبول کرتے ہوۓ میری شادی ایک کم تعلیم یافتہ دو بچوں کے باپ کے ساتھ کروادی گئی جو کہ پہلے ہی اپنی بیوی کو پیٹ پیٹ کر مار چکا تھا ۔

اس کے بعد میری زندگی شب و روز شوہر کے طعنوں مار پیٹ اور اس کے ان بچوں کو سنبھالتے گزرنے لگی جو کہ مجھے اپنی ماں تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے یہاں تک کہ میں بھی امید سے ہوگئی ۔ میں بہت خوفزدہ تھی ۔میں ایک بیٹی کی ماں نہیں بننا چاہتی تھی ۔میں نہیں چاہتی تھی کہ جو سلوک میرے ساتھ ہوا کل کو میری بیٹی کے ساتھ بھی ہو ۔

مگر یہاں بھی بدقسمتی نے میرا دامن نہیں چھوڑا اور میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا ۔ ایک اور روتی کرلاتی بیٹی جو معاشرے کے ظلم سہنے کے لیۓ اس دنیا میں آگئی تھی ۔ اس کے رونے کی آواز سن کر مجھے لگتا کہ وہ ساری زندگی ایسے ہی روتی رہے گی ۔مجھے اس پر بہت پیار آتا تھا اسی پیار کے سبب میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ بھی میری طرح اس دنیا میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے ۔

اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس دن جب گھر میں کوئی موجود نہ تھا میں نے اس معصوم کے منہ پر تکیہ رکھ دیا شروع میں وہ روئی مگر جلد ہی اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ گۓ ۔اس کے ناک سے خون نکلنے لگا اس کی آنکھیں اوپر چڑھ گئيں اور پھر وہ خاموش ہو گئی ۔ میں نے اس کو ہلاک کر دیا اپنے ہاتھوں سے اس کو ان تمام دکھوں سے بچا لیا جو اس معاشرے نے اس کو دینے تھے ۔

کیا میں نے کچھ غلط کیا ؟

To Top