نازک دل کا فسانہ جس کی کرچیوں نے ایک معصوم لڑکی کو زخم زخم کر دیا

میں ایک مصنف ہوں اکثر ملنے جلنے والے لوگ مجھے کردار ان کی زندگیاں مجھے کہانیاں دکھائی دیتی ہیں اس بار جب ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو سکون کے خیال سے اپنا بوریا بستر سمیٹے شمالی علاقے کے ایک پہاڑی مقام پر جا پہنچا جہاں صرف بہتے جھرنوں کی آواز اور فطرت کے حسین نظاروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا ۔

اکثر کئی کئی گھنٹوں تک کام کرنے کے بعد تھوڑا فریش ہونے کے ارادے سے جب میں گھر کی اس کھڑکی کے پاس جا بیٹھتا جہاں سے بہتے چشمے صاف نظر آتے  میں جب بھی کھڑکی سے باہر جھانکتا مجھے بہتے پانی کے ساتھ جامد خوبصورتی نظر آتی ۔

خوبصورت سنہرے بال گلابی رنگت اور نیلی آنکھوں والی جامد خاموش خوبصورتی ، وہ ایک بہت ہی حسین لڑکی تھی جس کو جب بھی دیکھا خاموشی کے ساتھ پانی کو گھورتے دیکھا ۔ اس کی عمر کی لڑکیاں جب ایک دوسرے کے ساتھ ہنس بول رہی ہوتی تھیں وہ تب بھی بس چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی ۔

وہ میری بیٹی کی عمر کی تھی ایک دن اس کے پاس جا پہنچا مجھے لگا کہ اس کی اس خاموشی میں بہت بڑا کوئی طوفان پوشیدہ ہے ۔ جب اس سے اس کی اس خاموشی کا راز پوچھا تو میرا شک درست ثابت ہوا اس کی اس خاموشی کے پیچھے چھپی کہانی خود اسی سے سنیۓ

بابو جی یہ جو لفظوں کی کٹاری ہوؤۓ نا اس کی چبھن روح تک جاؤے ہے ۔بندا پھڑکتا جاؤے اور مر بھی نہ پاؤے ۔ میرے کو بھی ایسا ہی زخم لگیا ہے ۔ جو نجر تو نہ آوے پر اس کی دکھن اور چبھن پیپ بھرے دانے کی طرح دکھتی جاؤے ۔ وہ بھلے میرے سینے میں برچھی مار ڈالتا میں اف کر جاتی تو شکایت کرتا مگر ایسے لفظوں کی مار نہ مارتا

میں بھی سب لڑکیوں کی طرح تھی صبح ہوتے ہی گھر کے کام کرتی پھر پانی بھرنے جھرنے آجاتی ۔ایک دن میں نے گھڑا بھرا اور اپنی سکھیوں کے ساتھ گھر کی جانب جا رہی تھی تو اچانک کہیں سے ایک پتھر آیا اورمیرے گھڑے پر آکر لگا

میرا گھڑا ٹوٹا تو میں ڈر گئی کیوںکہ میری سوتیلی ماں بہت غصے والی تھی مجھے گھڑا توڑنے پر بہت مارتی میں نے ادھر ادھر دیکھا تو وہ کچھ شہری بابو تھے جنہوں نے پتھر مار کر میرا گھڑا توڑ ڈالا تھا میں نے ان سے کہا کہ میرا نقصان بھریں میرے رونے میں پتہ نہیں ایسا کیا تھا کہ ان میں سے ایک نے جیب سے پیسے نکال کر دے دیۓ کہ یہ لو پیسے رو مت

مجھے کیا پتہ تھا کہ اس نے مجھے اس وقت تو چپ کروا دیا مگر اسی نے ساری عمر رلانا تھا اس دن تو میں نیا گھڑا لے کر گھر آگئی مگر اگلے دن جب پانی بھرنے گئی تو وہ پہلے ہی وہاں میرا انتظار کر رہا تھا اس کے بعد وہی ہوا جو ہر محبت کرنے والوں کی کہانی میں ہوتا ہے

میں اس کی محبت میں اتنی دیوانی ہوئی کہ اپنا آپ اپنی عزت سب کچھ اس کو دے بیٹھی ہم پہاڑی علاقے والے ایسے ہی ہوتے ہیں صاحب یا تو پیار کرتے نہیں اور اگر کر لیں تو پیچھے ہٹتے نہیں بس ایسا ہی ہوا ۔ وہ بھی یہاں اپنی ملازمت کے سلسلے میں آیا ہوا تھا ۔ تنہا گھر میں جوان لڑکا لڑکی ہوں تو ان کے بیچ کے پردے ہٹنے میں ٹائم نہیں لگتا

جس پل مجھے اندازہ ہوا کہ پانی سر سے گزر چکا ہے تو اس سے شادی کا مطالبہ کر ڈالا جس کے شروع میں تو وہ ٹالتا رہا مگر جب میں نے اس پر زیادہ زور ڈالا تو وہ چیخنے چلانے لگا کہ اس کا اور میرا میل نہیں ہو سکتا وہ ایک بڑا افسر میں ایک جاہل لڑکی ۔

یہ سب کچھ تو اس نے شرط جیتنے کے لیۓ کیا تھا جو اس نے اپنے دوستو کے ساتھ لگائی  تھی  صاحب اس نے تو شرط جیتی میں اپنا آپ ہی ہار گئی ۔ کوکھ میں اس کے بچے کو لیۓ کس کس کو بتاؤں کہ میری کوکھ میں بچہ نہیں ایک ہاری جیتی ہوئی شرط ہے جو اس کے باپ کی جیت اور اس کی ماں کی ہار ہے

وہ تو چلا گیا مجھے اس ظالم دنیا میں چھوڑ گیا ۔کوکھ کے اس بچے کے ساتھ مر بھی نہیں سکتی آخر ماں ہوں کیسے مار ڈالوں اپنی اولاد کو ۔ اور اس کے ساتھ اس دنیا کے سامنے جی بھی نہیں سکتی تبھی سارا دن اس دریا کے کنارے بیٹھ کر وقت کے پورے ہونے کا انتظار کر رہی ہوں

اس کی کہانی سن کر میں بس یہی سوچتا رہ گیا کہ جن لوگوں کا زندگیوں میں میل نہیں ہوتا ان لوگوں کا بستروں پر میل کیسے ہو جاتا ہے ؟؟؟

 

To Top