بغاوت اس کی سرشت میں تھی ۔بچپن ہی سے نۓ راستے اس کو اپنی جانب بلاتے تھے ۔اس کے اندر کی بے چین روح اس کو کسی کل چین لینے نہیں دیتی تھی اکثر وہ خود سوچتی تھی کہ اللہ تعالی نے اس کو کیا سوچ کر اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں پیدا کر دیا ہے ۔ اس کے خواب اتنے بڑے تھے کہ کبھی کبھی اپنی سوچ کی اڑان دیکھ کر وہ بھی پریشان ہو جاتی ۔
اس نے گاؤن کے سرکاری اسکول میں جب پڑھنا شروع کیا تو تعلیم کے لیۓ اس کے شوق نے سب کو حیران کر دیا مگر یہ صرف وہ جانتی تھی کہ اس کو تعلیم کا شوق نہیں بلکہ اپنی حالت بہتر بنانے کا جنون تھا ۔ دسویں کے بعد گاؤں کے اسکول سے بھی اس کا ناتا ٹوٹ گیا ۔
اب تعلیم کا حصول بھی اس کو ناممکن نظر آرہا تھا مگر جب پورے ضلع میں اس کی پہلی پوزیشن آئی اوراس کو وظیفہ ملا تو اس کو آگے تعلیم کے سے روکنے کا ہر بہانہ ختم ہو گیا ۔ اس کے بعد اس کو لگا کہ جیسے اس گھٹن ذدہ ماحول سے اس کے فرار کا راستہ کھل گیا ۔
اس نے ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ باہر کی دنیا کو بھی دیکھنا شروع کر دیا اسے بڑی حیرت ہوتی کہ جب اسی جیسے غریب گھرانے کی لڑکیاں اپنے بواۓ فرینڈز کے دیۓ ہوۓ مہنگے تحفے استعمال کرتی تھیں ۔
اس کے خواب ان مہنگی آسائشوں کا حصول ضرور تھا مگر اپنی عزت کی قیمت پر اس کو یہ سب قبول نہ تھا ۔ ایسا بھی نہ تھا کہ وہ شکل صورت میں کسی سے کمتر تھی مگر اس نے اپنی جانب بڑھنے والے ہر ہاتھ کو اس لیۓ جھٹک دیا تاکہ وہ اپنا مقصد حاصل کر سکے ۔
اپنی تعلیم کے چار سال اس نے بہت امتیازی حیثیت سے مکمل کیے جب واپس گھر آئی تو گھر کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو چکی تھی ۔مگر اس کو یہ یقین تھا کہ اب منزل دور نہیں ۔اس نے اس منزل کے حصول کے لیۓ بہت کٹھن راستہ طے کیا تھا ۔اس نے نوکری کی درخواستیں دینا شروع کر دیں اور پھر ایک جگہ سے انٹرویو کی کال بھی آگئی ۔
وہ اپنی نوکری کی درخواست لے کر صبح سے ایک لمبی لائن میں بیٹھی تھی اسے یقین تھا کہ میرٹ کے اعتبار سے اس نوکری پر سب سے پہلا حق اسی کا ہے ۔ اپنی باری پر جب کمرے میں گئی تو وہاں صرف ایک ہی ادھیڑ عمر انسان موجود تھا ۔ کمرے میں تمباکو کے ساتھ ایک اجنبی سی بو بھی تھی ۔ اس آدمی نے جس طرح اسے سر سے پیر تک دیکھا اسے لگا کہ ایک پل میں وہ بے لباس ہو گئی ۔
اس کے بعد تو یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہر جگہ اس سے نوکری کے لیۓ اس کی ڈگریوں کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی ایسے مطالبات کیے جاتے جن کی تکمیل اس کے لیۓ ناممکن ہوتی ۔اور جہاں نوکری مل جاتی وہاں پر کبھی کوئی ساتھی اہلکار یا پھر اس کا باس کام کے دوران اس کے جسم کے ایسے حصوں کو چھونے کی کوشش کرتا جو انتہائی شرمناک ہوتا ۔
اور جب وہ اس کے خلاف آواز اٹھاتی تو سزا کے طور پر اس کو نوکری سے نکال دیا جاتا ۔اس کو لگتا کہ اتنے سالوں کی تعلیم بے کار تھی ۔اس تعلیم نے اس کو عملی زندگی کا تو کچھ بھی نہیں سکھایا ۔ اور ایک دن تو انتہا ہو گئی اس کے باس نے اس کو چاۓ میں کچھ ملا کر پلا دیا ۔
جب اس کو ہوش آیا تو وہ اپنے سب سے قیمتی اثاثے سے محروم ہو چکی تھی ۔ وہ اپنے لٹے ہوۓ وجود کو لے کر گھر آگئی ۔گئی دن تک تو بے ہوشی اور بخار کے عالم میں پڑی رہی کسی کو کیا بتاتی کہ اس کے ساتھ کیا ہو چکا ہے
دفتر والوں نے بھی اس کے واجبات کے ساتھ ایک بار پھر اس کا ٹرمینیشن لیٹر بھجوا دیا تھا ۔ اس کے گھر والوں کو بھی یہ یقین ہو چکا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔اور پھر اس کو احساس ہوا کہ معاملہ یہیں تک ختم نہیں ہوا ۔اس کو اپنے وجود کے اندر کسی اور وجود کا احساس بھی ہوا ۔
اس نے اپنے کمرے کے دروازے کو اندر سے بند کر کے پنکھے سے پھندا لگا کر خودکشی کر لی ۔ اگلے دن اخبار میں خبر لگی کہ ایک لڑکی نے ناجائز اولاد کو چھپانے کے لیۓ اولاد سمیت خودکشی کر لی اور اس کے گاؤں کے سب لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو اسکول سے اٹھا لیا تاکہ کوئی اور لڑکی بغاوت کا گناہ نہ کر سکے