مجرم کے بجائے “جرم” کو پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کریں

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

حسن نثار ایک نامور تجزیہ نگار ، شاعر ، مفکر اور کالم نگار ہیں ۔ ان سب خوبیوں کے مالک ہونے کے باوجود ان میں ایک اور صلاحیت بھی ہے , وہ اپنے چبھتے ، جذباتیت سے لبریز ، بے ترتیب تبصروں کے باعث نسل نو کے ذہن میں ہیجان پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔

ایک بار ایک مباحثے کے دوران انہوں نے پاکستانی قوم کے فضائل بیان کرتے ہوئے کہا ” ہم تقسیم در تقسیم کے مارے ہوئے ان لوگوں کا ہجوم ہیں کہ جس میں کسی نے اچانک کوئی سانپ چھوڑ دیا ہو ” یہ جملہ بلاشبہ مجموعی معاشرتی سوچ کا عکاس ہے ۔ کوئی بھی معاملہ ہو ، پاکستان میں کوئی بھی شخص نہایت بھونڈی اور عقل سے بعید ایک کثیر الجہتی رائے لیکر نمودار ہوتا ہے ۔

ساہیوال میڈیکل کالج کی طالبات اور مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے مابین ہونے والے تنازعات کی بات دہرائی جائے تو مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے ایک عزیز اس مشورے کے ساتھ سامنے آئے ” اس A.c کو پھانسی دے دو ” میں نے ان سے سوال کیا ” کیوں ؟ ” تو انہوں نے معصومانہ جواب دیا ” کیوں کہ ان کا حل یہی ہے ”

جب قندیل بلوچ کے قتل کے سلسلے میں بحث و مباحثے کا آغاز ہوا اور مجھے میرے احباب کی جانب سے حسب معمول گالیوں کا ہدیہ تبریک پیش کیا جا رہا تھا ، انہوں دنوں ہمارے ایک دوست (جو حادثاتی طور پر یا بد قسمتی سے ڈاکٹر ) بھی ہیں ، کہنے لگے ” میں تو پہلے ہی کہ رہا تھا کہ اسے قتل کردینا چاہئے ”

ایک خاتون جو اگلے ماہ CSS کے امتحانات دینے جارہی ہیں، ان سے گفتگو کے دوران جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو دی جانے والی سزا کی نوعیت کے بارے میں بات ہوئی ، تو انہوں نے فوراً کہا ” ایسے لوگوں کو چوک چوراہوں میں لٹکا دینا چاہیے ” میں نے جب ان کی توجہ CSS کی تیاری کے دوران پڑھائے جانے والے criminal justice system کی طرف دلائی اور ان سے مؤدبانہ سوال کیا کہ اس نظام کا مقصد معاشرے سے مجرم کے بجائے جرم کا خاتمہ نہیں؟ کیا مجرم کو سزا کے ساتھ ساتھ دوران قید تربیت دینا ریاست کی ذمہ داری نہیں ؟ ”

اس سوال پر وہ ایک لمحے کے توقف کے بغیر بولی ٬ بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر ریاست پر بوجھ بڑھ جائیگا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے ۔ مگر طوالت باعث اذیت ہوسکتی ہے ۔

آخری بات کہہ کر اجازت چاہونگا اور وہ یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے 18 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیاں جاری ہیں ۔ اگر آپ کے قرب و جوار میں کوئی شخص (چاہے وہ آپ کا ہمسایہ ہو یا قریبی رشتہ دار ) ایسی کسی شادی میں سہولت کار ہو تو حکومت پنجاب کی رہنمائی کرتے ہوئے جرم کے خلاف آواز اٹھائیے ۔ یہی آپ کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ۔

To Top