جنید جمشید نے جہاز میں بیٹھنے سے پہلے آخری رابطہ کس سے کیا تھا؟

سات دسمبر 2016 پاکستان کی تاریخ میں ایک سانحہ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا ۔اس دن پاکستان کے مایہ ناز نعت خواں ،مبلغ اور ٹی وی پروگرام کے میزبان جنید جمشید ہوائی جہازکے حادثے میں چترال سے اسلام اباد آتے ہوۓ ہلاک ہوۓ ۔ اس حادثۓ میں جنید جمشید کے ساتھ ان کی اہلیہ اور 47 دیگر مسافر اور عملے کے افراد بھی سوار تھے ۔

اس اندوہناک حادثے میں کوئی فرد بھی زندہ نہ بچ پایا ۔پی آئی اے کا جہاز 661 ایک مسافر جہاز تھا ۔یہ وہی جہاز تھا جس سے یکم دسمبر 2016 یعنی حادثے سے ایک ہفتے قبل اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اسلام آباد سے گوادر تک کا سفر کیا تھا ۔یہ جہاز چین میں تیار کیا گیا تھا ۔ اور مئی 2007 میں پی آئی اے کے کریو میں شامل کیا گیا ۔یہ بالکل نیا جہاز تھا مگر ٹھیک دو سال بعد تیس مئی 2009 کو اس جہاز کو پہلا حادثہ پیش آیا ۔

لاہور ائیر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران اس جہاز کو پہلا حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس کو کافی نقصان پہنچا ۔مگر اس کو مرمت کے بعد دوبارہ سے استعمال میں لایا جانے لگا ۔اس کے ٹھیک پانچ سال بعد 2014 میں اس جہاز کے انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔مگر انتظامیہ نے اس کے انجن کو تبدیل کر کے اس میں نیا انجن لگا کر اس کو دوبارہ قابل استعمال بنا لیا تھا ۔

لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ اس اے ٹی آر جہاز کو پہلی بار چلانے والے پائلٹ نے انتظامیہ کو بارہا یہ رپورٹ پین کی کہ یہ جہاز خطرناک روٹ پر چلنے کے قابل نہیں ہے ۔لہذا اس کو ایسے روٹ پر چلانے سے احتیاط برتی جاۓ ۔ مگر انتظامیہ نے ان کی بات پر کان ہیں دھرے ۔ سات دسمبر کو چترال ائیر پورٹ پر یہ جہاز اڑنے کے لۓ تیار تھا ۔اس جہاز کی منزل اسلام آباد تھی ۔

اس کے مسافروں میں جنید جمشید اور ان کی اہلیہ کے علاوہ چترال کے ڈپٹی کمشنر اور ان کی اہلیہ اپنے نومولود بچے کے ساتھ اور 38 دیگر مسافر بھی سوار تھے ۔ان کے ساتھ ساتھ پانچ عملے کے افراد بھی شامل تھے ۔ایک گھنٹے دس منٹ کے اس سفر کا آغاز ساڑھے تین بجے ہوا ۔موسم بالکل صحیح تھا ۔

چمکدار دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔جنید جمشید جو کہ چترال تبلیغ کے مقصد سے آۓ تھے ۔ان کے ساتھی اور دوست ان کو رخصت کرنے کے لۓ آۓ تھے ۔ان کے ایک دوست نےان کے ساتھ ایک تصویر لی اور اسی وقت سوشل میڈیا پر شئیر کر دیا ۔دیکھنے والے یہ نہیں جانتے تھے کہ اس تصویر کے ذریعے وہ جنید جمشید کو آحری بار دیکھ رہے ہیں ۔

جہاز نے اپنی معمول کی پرواز کا آغاز کیا ۔سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا ۔چمکدار موسم کے سبب جہاز نے آسانی سے مشکل ترین پہاڑی لواری ٹاپ کو پار کر لیا تھا ۔ پرواز کو چالیس منٹ گزر چکے تھے صرف آدھے گھنٹے کا سفر بقایا رہ گیا تھا ۔پائلٹ نے چار بج کر بارہ منٹ پر کنٹرول روم سے رابطہ کیا اور ان کو اپنی پوزیشن سے آگاہ کیا ۔پائلٹ کی آواز پر سکون اور لہجہ پر اعتماد تھا ۔

رابطے کے منقطع ہونے کے دو منٹ بعد ہی پائلٹ نے کنٹرول روم سے دوبارہ رابطہ کیا اس بار پائلٹ نے مۓ ڈے کی کال کی اور مدد مانگی ۔ پائلٹ نے بتایا کہ جہاز کا ایک انجن فیل ہو چکا ہے ۔اس جہاز میں دو انجن لگے ہوتے ہیں ایک انجن میں خرابی کی صورت میں دوسرا انجن چلایا جا سکتا ہے ۔

کنٹرول روم کا پائلٹ سے یہ رابطہ آخری ثابت ہوا ۔اس کے کچھ دیر بعد ہی یہ جہازاسلام آباد سے نوۓ کلومیٹر کے فاصلے پر حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا ۔جہاز کے گرنے کی آواز اور اس سے لگنے والی آگ اتنی ہولناک تھی کہ اس کے نتیجے میں قریبی گاؤں کے لوگ فوری طور پر مدد کے لئے بھاگے

مگر ہولناک آگ کے سبب کسی کو بھی بچانا ان کے لۓ ممکن نہ تھا جہاز میں سوار تمام افراد کی لاشیں اس بری طرح جل چکی تھیں کہ ان کی شناخت بھی ڈی این اے ٹیسٹ سے ممکن ہو سکی ۔

بلیک باکس کی ڈی کوڈنگ کے نتیجے میں بھی کچھ پتہ نہ چل سکا کہ اگر اس جہاز کو دوسرے انجن سے چلایا جا سکتا تھا تو پھر کیوں نہیں چلایا جا سکا ۔کچھ لوگوں کے مطابق جہاز کے پائلٹ کو سلو پوائزن دیا گیا تھا جو اس کی موت اور طیارے کے حادثے کا سبب بنا مگر ان تمام قیاس آرائیوں کے باوجود اصل کہانی اب تک منظر عام پر نہیں آسکی۔

To Top