مسکراتے چہروں کے پیچھے چھپی دردناک کہانیاں

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

جنسی زیادتی‘ اس لفظ کو سنتے ہی کئی معنی اور تکلیف دہ مناظر ہمارے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ ہم لاکھ کوشش کرلیں لیکن ان واقعات سے نظریں نہیں چراسکتے۔ ابھی ننھی زینب کی قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ مردان سے چار سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کے ایک افسوسناک واقعے نے لوگوں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے شہر قصور میں پولیس تاحال زینب کے قاتل کو پکڑنے میں ناکام ہے۔

میں نے حال ہی میں پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چوہدری کا بیان سنا جس کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ زینب کو کبھی انصاف نہیں ملے گا، نوید چوہدری کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کو چھپانے کے پیچھے سیاسی اثرورسوخ شامل ہے کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں بلکہ بارھواں واقعہ ہے۔

انسانی چہروں کے پیچھے چھپے ان درندروں کو کیفر کردار تک پہچانے کے لئے پوری قوم متحد ہے ، بس اب انتظار اس بات کا ہے کہ کب یہ بھیڑیئے پولیس کی گرفت میں آتے ہیں۔زینب کے واقعے کے اثرات جب عام گلیوں سے نکل کر شوبز کی چمکتی دمکتی دنیا تک پہنچی تو حیران کن انکشافات سامنے آئے۔

شوبر کی مشہور و معروف شخصیات نادیہ جمیل ،فریحہ الطاف اور ماہین خان نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسگی کے واقعات سے پردہ ہٹا کر نہ صرف لوگوں کو حیران کر دیا بلکہ وہ ان خواتین کے لئے بھی عظم و ہمت کی مثال بن گئی ہیں جو بدنامی کے ڈر سے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔

 

 

نامور شخصیات کی جانب سے جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھانے پر عوام میں انہیں بے حد سراہا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی کئی معروف شخصیات اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی یا جنسی ہراس کے واقعے کو بیان کرنے کی جرات نہیں رکھتیں مشہور ٹی وہ اینکر ثنا بچہ نے اپنے حالیہ ٹوئیٹ میں کہا کہ میں فریحہ الطاف کی ہمت کو داد دیتی ہوں جنہوں نے زیادتی کے بارے میں بات کی، مجھے میں ابھی تک یہ ہمت نہیں کہ میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی بیان کرسکوں۔

 

بات صرف انہی شخصیات تک محدود نہیں رہی، تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی بیٹی ایمان نے بھی اپنے ساتھ ہونی والی زیادتی کا انکشاف کیا۔

 

بحیثیت عوام ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ چوری، ڈکیتی ، قتل اور جنسی زیادتی جیسے واقعات کا نشانہ صرف عام لوگ ہی بنتے ہیں، لیکن ایسا نہیں۔ یہ تمام شخصیات جو جنسی استحصال یا زیادتی کا شکار ہوئی ہیں یہ اس وقت نہ ہی کوئی مشہور اینکر تھیں نہ ماڈل اور نہ ہی ڈیزائنر، یہ صرف معصوم کلیاں تھیں

جنہیں شیطان نما انسانوں نے نوچنے کی بھرپور کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ آخر عورت کو کب تک ڈر سہم کر زندگی گزارنا ہوگی۔ چاہے بچپن ہو یا لڑکپن، جوانی ہو یا بڑھاپا، ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے، لیکن آخر کب تک؟؟

To Top