جنید جمشید اب ہم میں نہیں رہا، وہ ہمارا دل تھا وہ ہماری جان تھی، وہ محبتیں کرنا سکھا گیا، وہ راہ پر چلنے والا نہ تھا وہ تو نئی راہ بنانے والا تھا۔ وہ راستہ دکھانے والا تھا۔ اس کی موت کا اسی طرح یقین نہیں آرہا جیسے امجد صابری کے قتل کا یقین نہیں آتا تھا۔
کسے خبر تھی کہ اس دفعہ رمضان کی نشریات کی رونق جن دو چراغوں سے تھی وہی ہم میں نہ رہیں گے ۔چترال سے اسلام آباد آنے والے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے نے جہاں کئی گھروں کے چراغ گل کۓ وہیں لاکھوں دلوں کی دھڑکن جنید جمشید کو بھی ہم سے جدا کر دیا۔
یہ 1987 کی بات ہے اس وقت کے پاکستان کے واحد چینل پی ٹی وی نے جشن آزادی کے موقعے پر ہر صوبے کے ٹی وی اسٹیشن کے درمیان ملی نغموں کے ایک مقابلے کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر ہر شہر کی جانب سے ایک گانا پیش کیا گیا اسلام آباد کی جانب سے وائٹل سائن نامی ایک بینڈ نے دل دل پاکستان نامی ایک گانا پیش کیا اور نہ صرف مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا بلکہ یہ گانا ہر دل کی آواز اور اس کو گانے والا ہر دل کی دھڑکن بن گیا۔
خوبصورت، خوش لباس، نوجوان، تعلیم یافتہ جنید جمشید جیسے جیسے شہرت کی سیڑھیاں طے کرتا گیا۔ لوگوں کی جانب سے اس کے لۓ محبت اور بڑھتی گئی گلوکاری کے ساتھ ساتھ اس نے ایک ڈرامے میں اداکاری بھی کی ۔ شوبز والے جانتے تھے کہ اس کو آگے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
مگر لوگوں نے یہ خبر بھی بریکنگ نیوز کی طرح ہی سنی تھی کہ جنید جمشید نے اپنے کیرئیر کے عروج پر گانا گانا چھوڑ دیا ہے۔ اس کو خبروں میں رہنے کا قرینہ آتا تھا تبھی تو اس کی موت بھی ایک بڑی خبر ہی کی طرح سب کو ملی۔
اپنے عروج پر جب جنید جمشید نے گانے کو چھوڑ کر جس سلسلے کو اپنایا، اس نے ان کو صرف لوگوں کیا پیارا ہی نہیں بنایا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کا بھی پیارا بنا دیا۔ اپنی آواز کو اب انہوں نے گانوں کے بجاۓ ثناء خوانی اور نعت خوانی کے لئے مختص کردیا اور اپنے شب و روز کو دین اسلام کی اشاعت میں گزارنے لگے اور لاکھوں لوگوں کی ہدایت کا وسیلہ بنے ۔
آج وہ ہم میں نہیں۔ ان کی رمضان ٹرانسمیشن کے دوران دی گئی اذان میرے لاشعور میں کہیں گونج رہی ہے اور دل سب کچھ جانتے ہوۓ بھی کسی معجزے کا منتظر ہے کہ کوئی آکر کہہ دے کہ خبر غلط تھی، جنید جمشید زندہ ہیں۔ ہاں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ہمارے دل میں، ہماری جان میں، پاکستان میں انشاءللہ۔
منیبہ مزاری کی کامیابیوں کے سفر نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا