اسرائیلی اسمبلی کے در و دیواراذان سے گونج اٹھے: مسلم امہ کے لیئے لمحہ فکریہ

جب ماننے والے نے لبیک کہا۔ مدینے کی فضائیں ایک حبشی غلام بلال ابن رواحہ کی اذان کی صداؤں سے گونجی تھیں تو اس آواز کے جواب میں ہر حق گو نے لبیک کہا تھا۔ اس وقت بھی اذان  کی یہ صدائیں دشمنان اسلام کے لۓ بہت بہت ناقابل برداشت تھیں. یہودی تب بھی دشمنان اسلام تھے یہودی آج بھی دشمن ہیں اور قران کے مطابق قیامت تک یہ دشمنی قائم رہے گی ۔اذان کی صدا ان کو اور شیطان کو ہمیشہ ناپسند رہی ہے ۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ یروشلم میں اور خصوصا مشرقی یروشلم میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں کے لوگوں نے شکایت کی ہے کہ دن بھر میں کئی دفعہ لاوڈاسپیکر پر دی جانے والی اذان کی آواز کے سبب غیر مسلموں کے آرام و سکون میں خلل واقع ہوتا ہے ۔ لہذا اس بات کا فیصلہ کیا گيا ہے کہ اذان کے لۓ لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کا بل کینسٹ ( اسرائیلی قانون ساز اسمبلی) میں پیش کیا جاۓ۔

1

Halalbook

اس بل کی مسلمان ارکان کی جانب سے بھرپور مخالفت کی گئی یہاں تک کہ کل وہ تاریخ ساز واقعہ پیش آیا جو بظاہر تو صرف ایک خبر ہے مگر اس کے اثرات بہت دیرپا ہو سکتے ہیں ۔ اجلاس کے دوران فلسطینی رکن طالب ابو احرار نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوۓ اپنی تقریر کے دوران اچانک اذان کی صدا بلند کر دی ۔ جو کہ اسرائیلیوں کے لۓ قطعی غیر متوقع اور ناقابل برداشت تھی۔انہوں نے اس رکن کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس صدا کو ،اس اذان کو پھر ان کے ساتھی ،نبیل ابو رینیح نے پورا کیا۔

باطل کے ایوانوں میں سچ کی اس صدا نے لرزہ طاری کر دیا ہے ۔ مگر اذان تو مسلمانوں کے لۓ ایک بلاوا ہوتی ہے ۔ اس اذان کو حق کی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ اذان پکار ہے تمام مسلم امہ کے لۓ کہ یہ وقت جاگنے کا ہے ۔ لبیک کہنے کا ہے۔ فلسطین ،کشمیر، شام غرض ہر جگہ جہاں جہاں مسلمان تکلیف میں ہیں ان کے ساتھ دینے کا وقت ہے ۔

آج دشمن جو خود کو سب سے بڑا سمجھتا ہے اس کے لۓ اللہ اکبر کی صدا کیوں قابل برداشت نہیں؟ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر مسلمانوں نے اس صدا پر لبیک کہنا شروع کر دیا تو ان کو بیدار ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ اسی سبب وہ یہ پکار روک دینا چاہتے ہیں۔

امریکا افغان طالبان معاہدہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی منظوری دے دی

To Top