غیر قانونی اسقاط حمل کی اذیتوں سے گزرنے والی عورت کی داستان

اسقاط حمل کے بارے میں دنیا کے زیادہ تر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیۓ کیوںکہ اسقاط حمل کی باقاعدہ اجازت معاشرے میں بہت سارے منفی رجحان کے فروغ کا سبب بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ چاہے مغربی معاشرہ ہو یا مشرقی معاشرہ ۔اسلامی معاشرہ ہو یا غیر اسلامی ہر ایک میں اسقاط حمل کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے

اسقاط حمل اسلامی معاشروں میں خاص طور پر جرم قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اسقاط حمل کا مطلب کسی بھی معصوم کی اس دنیا میں آنے سے قبل ہی جان لے لینا ہے دوسری جانب اسقاط حمل کی قانونی اجازت ملنے سے قرآن کے اس حکم کی بھی رو گردانی ہوتی ہے جس کی رو سے میاں بیوی کے تعلق کا مقصد نئی نسل کی آبیاری ہے

اس حوالے سے تمام مکتبہ فکر کے لوگ متفق ہیں کہ اس بات کے لیۓ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کوئی عار نہیں جس کے ذریعے حمل سے بچا جا سکتا ہے مگر اگر ان احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی حمل ٹہر جاۓ تو اسلام اس حمل کے اسقاط کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دیتا سواۓ اس صورت کے اگر کہ اس حمل کے سبب ماں کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو

یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت تمام اسلامی پڑوسی ممالک جن میں افغانستان اور ایران بھی شامل ہیں  اسقاط حمل قانونا جرم ہے ۔ اسقاط حمل کے لیے جن دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی خرید و فروخت پر بھی پابندی ہے اس کے ساتھ میڈیکل کے شعبے سے منسلک لوگوں پر بھی اس بات کی پابندی ہے کہ وہ یہ عمل نہیں کر سکتے

ناجائز تعلق کی صورت میں تو حمل ٹہرنا اسلامی قوانین کے تحت کبیرہ گناہ ہے اور اس کی سزا سنگسار کرنا ہے مگر بعض حالات میں شادی شدہ جوڑا بھی اگر کچھ وجوہ کی بنا پر اگر اسقاط حمل کے خواہشمند ہوں تو قانون ،معاشرہ یا میڈیکل عملہ کوئی بھی ان کا مددگار ثابت نہیں ہوتا جس کے سبب ماں کی زندگی کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

ایسا ہی ایک واقعہ ایران کی رہائشی فہمیہ کا بھی ہے جس کی شادی سولہ سال کی عمر میں اس سے گیارہ سال بڑے آدمی کے ساتھ کروا دی جاتی ہے ۔شادی سے قبل فطری شرم اور معاشرتی قیود کے سبب اس کو جنسی عمل کےبارے میں کسی قسم کی بھی آگاہی نہیں دی گئی شادی کے بعد جب اس کا حمل ٹہر گیا تو اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ ابھی تو وہ خود اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہے اس لیۓ اتنی جلدی وہ ماں نہیں بننا چاہتی

اس کے شوہر نے اسکے اس حق کو تسلیم کیا اور یہ جوڑا اسقاط حمل کے لیۓ تیار ہوگیا ۔ مگر ایران کے قانون کے مطابق اسقاط حمل قانونا جرم ہے اس سبب مجبورا اس جوڑے کو ہارمون والے انجکشن بلیک مارکیٹ سے خریدنے پڑۓ اور پھر ایک دائی کو پیسے دے کر انہوں نے انجکشن لگوا لیۓ

یہ انجکشن لگوانے کے لیۓ دائی نے ایک سیلن ذدہ تہہ خانے کا انتخاب کیا جہاں انجکشن لگانے کے بعد دائی نے فہمینہ کو مشورہ دیا کہ اپنے گھر جا کر بھاری چیزیں اٹھاۓ تاکہ اس سبب حمل ضائع ہو سکے مگر گھر جاتے ہی فہمینہ کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ مجبورا جان بچانے کے لیۓ فہمینہ کو ہسپتال لے جانا پڑا

جب فہمینہ کے ماں باپ کو اس کی خواہش کے بارے میں پتہ چلا تو وہ ہسپتال سے فہمینہ کو اپنے گھر لے گۓ جہاں انہوں نے اس کا معائنہ ایک گائنا کالوجسٹ سے کروایا جس نے کہا کہ ا انجکشن کے سبب فہمینہ کی بچہ دانی بری طرح متاثر ہوئی ہے جس سے بچے اور فہمینہ دونوں کی جان اور صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔لہزا اسقاط کروا دیا جاۓ

مگر فہمینہ کے ماں باپ نے کہا کہ اسقاط حمل گناہ ہے اس وجہ سے وہ کسی صورت بھی اس کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں نو ماہ تک فہمینہ اپنے اور اپنی کوکھ میں پلنے والے بچے کے لیۓموت مانگتی رہی مگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوئیں اور وہ ایک ایسے بچے کی ماں بن گئی جس کے پھپھڑوں میں شدید انفیکشن تھا ۔ اس کے بعد دو سال کی عمر کو پہنچنے تک اس کو مرگی کے دورے بھی پڑنے شروع ہوگۓ

اس کے شوہر نے بھی ان تمام حالا ت کو دیکھتے ہوۓ اس کو طلاق دے دی اور اس طرح صرف اسقاط حمل کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب ایک گھر برباد ہو گیا اور کئي زندگیاں تباہ ہو گئيں

 

To Top