کیا اسلام مرد کو عورت سے جنسی زیادتی کا حق دیتا ہے؟

پاکستانی معاشرہ میں مرد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس کا سبب مذہبی بنیاد پر دی گئي وہ برتری بھی ہے جس کے سبب مرد خود کو حاکم اعلی تصور کرتا ہے ۔وقت کے گزرنے کے ساتھ معاشرے میں جہاں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں پر عورت کے لیۓ بھی باہر کی زندگی کے راستے کھل گۓ ۔

ایک زمانے میں مرد کا واسطہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک صرف ان ہی خواتین سے پڑتا تھا جو کہ اس کے گھر میں ہوتی تھیں وہ اس کی ماں ہوتی تھی بہن ہوتی تھی اور جوان ہونے پر اس کو ایک اور عورت سے نواز دیا جاتا تھا جو اس کی بیوی ہوتی تھی جس کا وہ بلا شرکت غیرے مالک ہوتا تھا ۔

ان حالا ت میں مرد عیاشی کی عیاشی صرف اس حد تک محدود ہوتی تھی کہ وہ فلموں کے پوسٹرز پر سے اداکاراوں کی تصویریں دیکھ کر یا تو ٹھنڈی آہیں بھرتا تھا یا پھر سال میں ایک آدھ بار سینما جاکر ان اداکاراوں کا دیدار بھی دور سے کر لیتا تھا اور واپس آنے کے بعد اس کے نصیب میں لہسن پیاز کی بو میں بسی اس کی اپنی بیوی ہوتی ۔

جس مرد میں عیاشی کا بخار زیادہ ہوتا وہ بازار حسن جا کر طوائفوں کے ساتھ ایک بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد کچھ وقت گزار آتا ۔مگر یہ بات حقیقت ہے کہ مرد کی نظر میں اس وقت بھی سب سے بڑی عیاشی عورت ہی ہوتی تھی ۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس مرد کو سب سے پہلے مخلوط تعلیمی اداروں میں لڑکیوں سے واسطہ پڑتا ہے اس کے بعد زندگی کے ہر حصے میں اس کے سامنے عورتیں موجود ہوتی ہیں جو نہ تو اس کی ماں ہوتی ہیں نہ بہن اور نہ بیٹی ۔ ان تمام حالات میں اگر مرد کی فطرت کو دیکھا جاۓ تو اس کو اپنے ساتھ موجود ہر عورت ایک عیاشی کا ذریعہ لگتی ہے ۔

اگر ہم معاشرے کے رویۓ کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہر مرد چاہے اس کا تعلق عمر کے کسی بھی حصے  سے ہو کسی بھی ماحول سے ہو وہ کسی نہ کسی حد تک عورت کا ریپ کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے ۔ضروری نہیں کہ یہ ریپ صرف جنسی طور پر ہی کیا جاۓ ۔بعض مرد صرف اپنی نظروں سے ہی اس امر کو کر گزرتے ہیں ۔

اور جو شرافت کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہوتے ہیں وہ اس ریپ کے لیۓ اپنی زبان اور لفظوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک یہ عمل جائز ہوتا ہے کیوں کہ ان کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ جو عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو وہ مرد کو خود اس بات کا موقع دیتی ہے کہ مرد اس کا ریپ کرے ۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی لڑکی کے ساتھ جنسی زيادتی کی خبر آتی ہے تو سب سے پہلا سوال یہی اٹھایا جاتا ہے کہ یہ لڑکی گھر سے باہر کیوں نکلی تھی یا اس نے اس قسم کا لباس کیوں پہنا تھا یا پھر یہ اس وقت اکیلے وہاں کیا کر رہی تھی ۔ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوۓ واقعات کا تانا بانا اگر میڈيا کی فحاشی سے جوڑا جاۓ تب بھی ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ عورتوں کو فحش لباس میں میڈیا پر دکھانے والے بھی کوئی اور نہیں مرد ہی ہیں ۔

جنہوں نے پہلے تو اپنی عیاشی کے لیۓ عورت کو برہنہ کیا اور جب وہ عورت برہنہ ہو گئي تو اس کے بعد اپنے جزبات سنبھالنے ان مردوں کے لیۓ ہی دشوار ہوگۓ انہوں نے اپنے اندر کی پیاس بجھانے کے لیۓ جو اور جہاں ملے لوٹ لو کا شعار اپنا لیا

To Top