اسلام میں جنسی زیادتی کی سزا پھانسی نہیں ہے بلکہ کیا ہے ؟

اسلام دین فطرت ہے اس میں تمام امور کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے ۔حقوق و فرائض کی رہنمائی کرنے والا یہ دین ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتا ہے ۔اسی سبب قرآن وسنت میں قیامت تک ہونے والے جرائم کی سزا کے بارے میں ہمیں رہنمائی ملتی ہے ۔ضرورت صرف اس چشم بینا کی ہے جس کو کھولنے کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے ۔

قصور میں ایک معصوم بچی زینب کے ساتھ جنسی زيادتی کے بعد اس کے قتل کے واقعے نے پورے پاکستان کو احتجاج پر مجبور کر دیا ہے اور ہر فرد یہی مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ اس درندے کو گرفتار کرتے ہی پھانسی پر لٹکا دیا جاۓ ۔تاکہ اس سے سب کو عبرت حاصل ہو سکے ۔مگر جب ہم اسلامی قوانین کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں اس بات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ اسلام میں اس جرم یعنی جنسی زیادتی کی سزا پھانسی نہیں ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس جرم کی اسلام میں کیا سزا ہے ؟ جنسی زیادتی کا جرم حدود کے زمرے میں آتا ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے بتاۓ ہوۓ قوانین سے رو گردانی کی گئی ہے اور اس کی سزا بھی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہی دی جا سکتی ہے ۔ اس کے بعد دوسرا جرم قتل ہے یعنی جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دینا اس کی سزا قصاص کی صورت میں ہوتی ہے ۔یعنی مقتول کے ورثا اس بعد کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ قاتل کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاۓ ۔

اگر پاکستانی قوانین کو دیکھا جاۓ تو اس کے مطابق جنسی زیادتی کی سزا سات سال قید اور سات لاکھ ہرجانے کی صورت میں ہے اور قتل کی صورت میں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے مگر اس میں بھی مقتول کے لواحقین کے پاس یہ حق موجود ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ قاتل کی سزا کا فیصلہ کر سکے

پاکستانی قانون کے مطابق جنسی زیادتی کا جرم زنا با لجبر کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی سزا اسلامی قانون میں سنگسار کرنے کی ہے ۔ جب کہ پاکستانی قانون میں یہ سزا اس سے مختلف ہے ۔سنگسار کرنے سے مراد ہے کہ مجرم کو آدھے دھڑ تک زمین میں دبا دیا جاۓ اس کے بعد اس پر اس وقت تک پتھر برساۓ جائیں جب تک کہ وہ ہلاک نہ ہوجاۓ ۔

پاکستانی معاشرے میں بڑھتے ہوۓ جنسی زیادتی کے واقعات کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ مجرم کو پھانسی کی سزا نہ دی جاے بلکہ اس کو سر عام سنگسار کیا جاۓ تاکہ اس کو عبرت کا ایسا نشان بنایا جاسکے تاکہ آئندہ کوئی بھی انسان اس قسم کا فعل کرنے سے قبل سو بار سوچے

To Top