کیا 2018 کے الیکشن پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے خواب پورے کر سکیں گے؟

پاکستان کے قیام یعنی 1947 سے لے کر 2017 تک کے عرصے پر نظر دوڑائی جاۓ تو پتہ چلتا ہے کہ اس سارے عرصے میں پاکستان کے اندر مختلف ادوار میں شاہد خاقان عباسی سمیت اب تک بیس لوگ وزیر اعظم کی کرسی سنبھال چکے ہیں۔ ان میں مسلم لیگ وہ پارٹی ہے جس کو سب سے زیادہ بار یعنی پانچ بار وزارت عظمی کی کرسی سنبھالنے کا موقع ملا ۔

اس کے بعد دوسری باری پیپلز پارٹی کی آتی ہے جنہوں نے چار بار یہ کرسی سنبھالی ۔ گوشتہ کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ وزارت عظمی کی کرسی باری باری سنبھال رہے تھے۔ ان کی باریوں کے اس سلسلے کو ہر بار مارشل لا  روک دیتا تھا۔ یہ سلسلہ شاید اسی طرح جاری و ساری رہتا مگر تحریک انصاف نے آکر اس معاملے میں رخنہ ڈال دیا ۔

ورلڈ کپ جیت کر لانے والے عمران خان نے جب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد اپریل 1996 میں رکھی تو سننے والوں کو یہ خبر سن کر یہی لگا کہ چند دنوں کی بات ہے عمران خان یا تو مسلم لیگ میں چلا جاۓ گا یا پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لے گا۔ 2002 کے الیکشن میں تحریک انصاف کی چئرمین عمران خان صرف اپنی سیٹ جیت کر اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوۓ ۔

اس کے بعد 2008 کے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے اس دور میں بھی اسمبلیوں سے دور رہے ۔مگر رفتہ رفتہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف متوسط طبقے کی ایک بڑی نمائندہ جماعت کی صورت میں ابھری ۔ 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔اس موقعے پر قومی اسمبلی میں 35 نشستیں حاصل کیں۔ووٹوں کی تعداد کے حساب سے دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔

عمران خان کے مطابق اگر 2013 کے الیکشن میں دھاندلی نہ ہوتی تو مرکز میں انہی کی پارٹی کی حکومت ہوتی۔ دھاندلی کے خلاف بھرپور تحریک چلاتے ہوۓ تحریک انصاف نے مسلم لیگ کے اس دور حکومت میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ اور یہ ان ہی کی جدوجہد اور تحریک کے سبب  ممکن ہو سکا کہ انہوں نے حکومتی وزیر اعظم کو نہ صرف نااہل قرار دلوایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو ان کے پورے خاندان کے ساتھ کٹہرے میں بھی کھڑا کروا دیا ۔

اب جب کہ 2018 کو الیکشن کا سال قرار دیا جا رہا ہے سب کی نظریں سیاسی منظر نامے پر لگی ہوئی ہیں کہ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟؟ ماضی پر اگر نظر ڈالی جاۓ تو مسلم لیگ اپنی باری پوری کر چکی ہے اور اگلے دور میں ان کی باری نظر نہیں آرہی ہے۔ مگر یہ بات بھی تجربات سے ثابت ہے کہ جو پارٹی پنچاب میں اکثریت حاصل کرتی ہے مرکز میں حکومت وہی بنا سکتی ہے۔

مگر اس بار پیپلز پارٹی پنجاب میں بری طرح ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی طاقت بن کر ابھری ہے۔ اسی سبب سیاسی ماہرین عمران خان کی پوزیشن انتہائی مضبوط دیکھ رہے ہیں ۔ البتہ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا کہ آزاد الیکشن کمیشن کی جس تحریک کا آغاز عمران خان نے 2013 کے الیکشن کے اختتام پر کیا تھا وہ اب تک کامیاب نہیں ہو سکا ۔

قیاس یہ کیا جارہا ہے کہ اگر 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کو رکوانے میں عمران خان کامیاب ہو گۓ تو ان کو اس بار وزیر اعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔

 

To Top