کیا عمران خان کی الیکشن 2018 میں کامیابی سے پاکستان میں مفاداتی سیاست کا خاتمہ ہوجائیگا؟

Disclaimer*: The articles shared under 'Your Voice' section are sent to us by contributors and we neither confirm nor deny the authenticity of any facts stated below. Parhlo will not be liable for any false, inaccurate, inappropriate or incomplete information presented on the website. Read our disclaimer.

سیاست ایک سائنس ھے جس کا تعلق حکومت بنانے اور چلانے سے ہیں۔ سیاست کا مرکزی نقطہ عوام الناس کو بہترین بنیادی سہولیات فراہم کرنا، عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنا اور اس پہ عمل درآمد کرنا اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا۔

نظریاتی سیاست میں لوگ ایک نظریہ لیکر چلتے ہیں اور اس نظریے کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے میں دن رات محنت کرتے ہیں، مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ جتنی بھی مشکلات آئیں جتنی بھی رکاوٹیں ان کے راستے میں کھڑی کی جائیں وہ لوگ نظریے سے پیچھے نہیں ہٹتے یہاں تک کہ نظریے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔

سقراط ک جب زہر کا پیالہ پینے کو دیا گیا تو اس سے کہا گیا آپ اپنے نظریات کی تردید کر دیں تو آپ کی جان بخشی ہو سکتی ھے لیکن وہ اپنے نظریے کی سچائی پہ قائم رھا۔اس نے زہر کا پیالہ پی لیا لیکن اپنے نظریے کو فتحیاب کر گیا۔

نظریاتی سیاست کا مطلب ھے کہ سیاسی جماعت اجتماعی اور قومی مفاد کے لیے نصب العین متعین کرے اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرے۔

پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ ایک نظریاتی جماعت تھی جس کا ابتدائی مقصد متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ اور دفاع تھا جو بعد میں قومی مقصد تکمیلِ پاکستان میں تبدیل ہو گیا۔مسلم لیگ نے نظریاتی سیاستدان قائدِاعظم محمد علی جناح کی قیادت میں نظریاتی جنگ لڑی۔ قائدِاعظم نظریات کو مفادات پہ ترجیح دیتے تھے۔

ایک موقع پر کانگرس اور وائسرائے ہند نے قائدِ اعظم کو پیشکش کی کہ اگر وہ پاکستان کا مطالبہ ترک کر دیں تو انہیں متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیرِاعظم بنا دیا جائے گا۔ اگر قائدِاعظم مفاداتی سیاستدان ہوتے تو یہ پیشکش قبول کر لیتے مگر وہ نظریاتی سیاستدان تھے انہوں نے جواب دیا ” میں اپنی قوم کو فروخت نہیں کر سکتا۔”

پاکستان کا وجود ایک نظریے کے تحت عمل میں آیا اور وہ نظریہ تھا دوقومی نظریہ۔ اس نظریہ کو لیکر مسلمانانِ ہند اٹھےاور قائدِاعظم کی لیڈرشپ میں اس نظریہ پہ ڈٹ گئے۔ ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔ ان کے یقین کو نہ کوئی خوف شکست دے سکا اور نہ کسی قسم کا لالچ۔ مشکلات کے پہاڑ عبور کر کے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دیا اور دنیا کے نقشے میں ایک الگ ملک پاکستان کا اضافہ کر دیا۔

نظریاتی رہنما ریاست سے ذاتی فائدے اٹھانے کے بجائے ریاست کے لیے قربانیاں دیتا ھے۔ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، ابراہیم اسماعیل چندریگر یہ سب نظریاتی لوگ تھے جنہوں نے سیاست میں رہ کر ذاتی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ ملک وقوم کے لیے قربانیاں دیں۔

نظریاتی سیاست کا سلسلہ کسی نہ کی طرح ضیاءالحق کے مارشل لاء تک چلا۔ ضیاءالحق کے مارشل لاء نے نظریاتی سیاست کو دفن کر کے مفاداتی سیاست کی بنیاد رکھی اور ایسے لوگوں کو ایوان کی راہ دیکھائی جنہیں نظریاتی سیاست تو کجا سیاست کا شعور بھی نہیں تھا۔ شاید ایک آمر کو اسی طرح کے سیاستدانوں کی ضرورت ہوتی ھے جو اس کے اقتدار کو طول دینے کے لیے بیساکھیاں فراہم کر سکیں۔ ضیاءالحق کی کابینہ سے پہلے جتنی بھی حکومتیں بنیں اس کے شاید ہی کسی وزیر یا وزیرِاعظم پر کرپشن کے الزامات لگےہوں۔ وہ لوگ سیاست عزت کے لیے کرتے تھے نہ کہ مفادات اور دولت کے انبار لگانےکے لیے۔ ضیاءالحق مرحوم نے سیاست کی بنیادوں سے نظریات کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ پہ مفادات لے آئے۔

تب سے لیکر آج تک جتنے سیاستدان آئے انہوں نے ملکی مفادات پر ذاتی مفادات کوترجیح دی۔ ملک کا نقصان کر کے اپنا اور اپنے عزیزواقرباء کا فائدہ کیا۔ من پسند افراد کونوازنا شروع کیا۔ عہدوں کی بندربانٹ کا آغاز کیا گیا۔ خزانوں کا منہ خوشامدیوں اور من پسند افراد پہ کھول دیا گیا جس سے ملکی خزانے کو نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں بیرونی قرضوں کے انبار لگ گئے۔ بے روزگاری، بھوک و افلاس میں اضافہ ہوا۔ امیر غریب کا فرق بڑھتا گیا۔

سیاست خدمت کے بجائےکاروبار بن گیا۔ اپنے اور اپنےبچوں کے لیے دولت کے انبار لگا دیے اور عوام کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ھے۔ ضیاءالحق کی کابینہ سے لیکر آج تک کتنے ہی سیاستدان کرپشن، لوٹ مار۔، منی لانڈرنگ اور اقرباءپروری جیسے گھناؤنے الزامات کی زد میں ہیں بلکہ الزامات ثبوتوں کے ساتھ ثابت بھی ہو چکے۔ نواز شریف سے لیکر بینظیر تک سب نے کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کیےرکھا ھے۔ کوئی مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہوا تو کسی کی پناما میں اربوں کھربوں کی جائیدادیں نکلیں۔ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کے اپنے مفادات حاصل کرتے رہے کہ مفاداتی سیاست میں ملک و قوم کے مفادات سے زیادہ اپنے اور اپنے عزیزواقارب کے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔

آج ملک میں بےروزگاری، ناخواندگی، کرپشن ، رشوت، غربت اور عدم استحکام انہیں مفاداتی سیاستدانوں کی وجہ سے ھے جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ تو خوب کیا لیکن ملک و قوم کا نہیں۔ آج ملک تباہی کےدہانے پر انہی مفاد پرست سیاستدانوں کی وجہ سے کھڑا ھے۔

عمران خان کی صورت میں ایک بار پھر نظریاتی سیاست کی امید روشن ہوئی کہ وہ پچھلے بیس سالوں سے اپنے نظریے پہ قائم ھے کہ سودا بازی کرنا شاید اسے آتا نہیں۔ وہ واحد سیاستدان ھے جوصرف ملک و قوم کی بات کرتا ھے اور اسوقت امید کی کرن بھی وہی ھے لیکن عمران خان صاحب نےبھی جیتنے والے گھوڑوں کو نظریاتی لوگوں پہ ترجیح دی اور ان کےاردگرد بھی اب وہی لوگ تقریباً کھڑے ہیں جو پچھلے بیس تیس سالوں سے اس ملک کے لیے ناسور بنےہوئے ہیں لیکن امید کا دامن چھوڑنا نہیں چاہیے کہ ناامیدی کفر ھے۔

To Top