ہالووین کیا ہے اس کو پاکستانی لوگ کیوں منانے لگے ہیں

اکتیس اکتوبر کو منایا جانے والا مغربی تہوار ہالووین اب آہستہ آہستہ مشرقی ممالک میں بھی منایا جانے لگا ہے ۔ہالووین تہوار کی جڑیں ہمیں یورپ میں نظر آتی ہیں ۔یہ تہوار قدیم مذہب سیلٹ کے ماننے والے صدیوں سے مناتے آۓ ہیں ۔اس مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں انسانوں اور بری ارواح کے درمیان ایک پردہ موجود ہوتا ہے جو انسانوں کو ان بری ارواح سے محفوظ رکھتا ہے ۔مگر موسم گرما کے اختتام پر یہ پردہ بہت باریک ہوجاتا ہے ۔


اس پردے کے نازک ہونے کے سبب اس بات کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ یہ بری ارواح انسان پر حملہ آور نہ ہو جائیں ۔ان کے اس حملے سے بچنے کے لۓ اس مذہب کے پیروکار بھیس بدل کر ان بدروحوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تاکہ ان سے بچا جا سکے ۔ انیسویں صدی کے نصف میں آئرش تارکین وطن ہالووین کو شمالی امریکہ لے کر آۓ تھے اور پھر اس میں جدت پیدا ہوتی گئیں ۔
اب اس دن لوگ اپنے گھروں کو نت نۓ اندازخوفناک انداز میں سجاتے ہیں ۔اس کے ساتھ کدو کو اندر سے خالی کر کے اس کی لالٹین بنا کر بھی گھروں کو سجایا جاتا ہے ۔بچوں میں ٹافیاں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں ۔


چونکہ دنیا اب کمیونیکیشن کے اس دور میں ایک گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے لہذا اب کوئی تہوار بھی کسی ایک قوم کی ملکیت نہیں رہا گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں بھی اس تہوار کو منایا جا رہا ہے اس تہوار کو منانے میں میڈیا کے لوگ زیادہ آگے آگے نظر آتے ہیں ۔اس کی وجہ بظاہر اس تہوار کے اندر موجود آرٹ کا عنصر نظر آتی ہے ۔

مزہبی رہنماؤں کا یہ ماننا ہے کہ اس قسم کے کسی تہوار کے کوئی شواہد قران و سنت میں موجود نہیں ہیں ۔اور نہ ہی ایسی کوئی بات قرآن سے ثابت ہے کہ انسانوں اور بدروحوں کے درمیان ایسا کوئی پردہ موجود ہے جس سے بھیس بدل کر بچا جا سکتا ہے ۔البتہ علما کرام کے مطابق قرآن میں ایسی آیات ضرور موجود ہیں جن کے ورد سے ایسے برے اثرات اور شیطانی طاقتوں سے پناہ حاصل کی جا سکتی ہے

 

To Top