شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی زبردستی رجوع کر سکتا ہے علما کا ایسا فتوی سامنے آگیا جس نے سب کو حیران کر ڈالا

مسلمانوں کو دین کے جن مسائل کے لیۓ رہنمائی چاہیۓ ہوتی ہے اس کے لیۓ وہ قرآن و سنت کا سہارہ لیتے ہیں اور اگر کسی معاملے میں رہنمائی نہ مل سکے تو مفتیوں سے رجوع کرتے ہیں جو قرآن و سنت کی روشنی میں فتوی جاری کرتے ہیں

اسلام سے قبل معاشرے کے اندر عورتوں کی معاشرتی حالت انتہائی بدتر تھی اس حوالے سے اسلام نے عورتوں کو ہر ہر حوالے سے نہ صرف عزت بخشی بلکہ معاشرے کے اندر مرد و عورتوں کے حقوق و فرائض کو اتنے مساویانہ انداز میں تقسیم کیا جس کی مثال ماضی میں کہیں بھی نہیں ملتی ہے

مگر جیسے جیسے  وقت گزرتا گیا بہت سارے ایسے معاملات سامنے آتے گۓ جن کی رہنمائی کے لیۓ قرآن و سنت کے ماہرین سے رجوع کیا گیا جنہوں نے اپنی قابلیت اور اپنی علمی مہارت کی بنیاد پر فتوی جاری کرنے شروع کر دیۓ ۔ ان فتوؤں کے جو کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دیۓ جاتے ہیں ان کی تعمیل کے لیۓ ہر مسلمان کو یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ وہ ان کو عقلی میزان مین لازمی جانچ لیں اگر کوئي فتوی عقلی پیمانے پر پورا نہ اترے تو اس کو دلیل کی بنیاد پر رد بھی کیا جا سکتا ہے

مگر اس کے باوجود ایک طبقہ معاشرے کا ایسا بھی ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ ان فتوؤں پر آنکھ بند کر کے عمل کرنا چاہیۓ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے گناہ کا ذمہ دار فتوی دینے والا ہو گا آج کل کے اس سوشل میڈیا کے دور میں مختلف اسلامی مسالک کی جانب سے اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ لوگ آن لائن ان سے سوالات پوچھ سکتے ہیں جن کے جوابات مختلف علما قرآن و سنت کی روشنی میں دیتے ہیں

ایسی ہی ایک ویب سائٹ دارالعلوم دیوبند کے آن لائن درالافتا ہے جہاں پر لوگوں کے پوچھے گۓ سوالات کے جوابات آن لائن دیۓ جاتے ہیں تاکہ ان سے وہ لوگ بھی مستفیض ہو سکیں جو کہ اس قسم کی صورتحال کا شکار ہیں

سوال نمبر 3661میں کسی نے  پوچھا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اس کے گھر والے اسے لے گئے، تھوڑے دنوں بعد میں نے اس سے رجوع کا ارادہ کیا لیکن لڑکی اور اس کے گھر والوں نے صاف انکار کر دیا۔ میں نے ایک خط میں لکھ کر انہیں بھیج دیا کہ میں نے رجوع کر لیا ہے، لیکن اس کے گھر والے اور وہ لڑکی واپسی پر راضی نہیں ہیں کیا میرا رجوع ہو گیا؟

اس سوال کے جواب میں اس شخص کو جو جواب دیا گیا وہ ملاحظہ فرمائیں

 اگر عدت کے اندر تحریری طور پر آپ نے دو گواہوں کے سامنے رجوع کرلیا ہے تو آپ کی یہ رجعت صحیح ہوگئی خواہ بیوی اور اس کے میکے والے راضی ہوں یا نہ ہوں

اس فتوی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر مرد زبردستی بھی اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہۓ یا رجوع کرنے کی کوشش کرے خواہ اس کے گھر والے یا وہ لڑکی بزات خود اس عمل کے لیۓ راضی نہ بھی ہو تب بھی وہ لڑکی اس کی بیوی ہی تصور کی جاۓ گی

بظاہر عقلی پیراۓ میں یہ فتوی اسلام کے مساوی حقوق کے قانون سے کسی طور بھی مطابقت نہیں رکھتا اسلام میں شادی کے برقرار رہنے کی شرائط میں میاں بیوی دونوں کا ہی راضی ہونا ضروری ہوتا ہے کسی ایک فریق کے پاس اس بات کا کلی اختیار موجود نہیں ہے کہ وہ جب چاہے اس تعلق کو بنا لے اور جب چاہے ختم کر ڈالے

 

To Top