‘اپنی مردہ بیوی کے ساتھ مباشرت کرنا زنا نہیں’ مصری عالم نے یہ فتوی کیوں جاری کیا ؟

میاں بیوی کا تعلق جو نکاح کے تین بولوں کے ساتھ جڑتا ہے ا س کے متعلق اسلام میں بار بار یہ بتایا گیا ہے کہ یہ رشتہ اور تعلق صرف اس دنیا کے لیۓ ہی نہیں ہے بلکہ یہ رشتہ مرنے کے بعد بھی قائم و دائم رہتا ہے مگر اس حوالے سے کچھ فقہ کے لوگ اس بات پر بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ بیوی کے مرنے کے بعد شوہر سے اس کا نکاح اسی پل سے ختم ہو جاتا ہے جب کہ مرد کے مرنے کی صورت میں عدت کے وقت تک اس عورت کا نکاح اس آدمی سے باقی رہتا ہے ۔


اس متنازع موضوع کے حوالے سے حالیہ دنوں میں مصری اخبار “اليوم السابع” نے جامعہ ازہر میں تقابلِ فقہ کے پروفیسر ڈاکٹر صبری عبدالرؤوف سے ایک متنازع فتوی منسوب کیا جس میں مذکورہ اسکالر کا کہنا تھا کہ “شوہر کی اپنی فوت ہو جانے والی بیوی کے ساتھ مباشرت یا ازدواجی تعلق حلال ہے اور اس کو “زنا” شمار نہیں کیا جائے گا۔ ایسے شخص پر کوئی حد یا سزا جاری نہیں ہو گی کیوں کہ شرعی طور پر یہ عمل حرام نہیں ہے اور فوت ہونے والی عورت واقعتا اس کی بیوی ہے”۔ البتہ مذکورہ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صبری کا کہنا تھا کہ یہ عمل معاشرتی طور پر پسندیدہ نہیں ہے۔

اس فتوی نے مصر کے اسلامی حلقوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی اور حامعہ ازہر اور اوقاف کے علما اس فتوی ا جواب دینے کے لیۓ میدان میں اتر پڑے اور انہوں نے اس حوالے سے اس بات کا بھی حوالہ دیا ہے کہ عورت کے ساتھ مرد کا نکاح اس کے مرتے ہی باقی نہیں رہتا ہے

مصری وزیر اوقاف ڈاکٹر محمد مختار جمعہ نے اس فتوی کو ایک آفت قرار دیتے ہوۓ کہا ہے کہ یہ فتوی ایک آفت ہے اور اس طرح کے فتوؤں کے ذریعے اسلامی تعلیمات کا مزاق بنایا جا رہا ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی ہے جب کہ دوسری جانب اس فتوی کے حوالے سے جامعہ ازہر کے علما نے مزکورہ عالم کو جوابدہی کے لیۓ طلب کر لیا ہے کہ انہوں نے کس قرآنی حوالے کی بنیاد پر یہ فتوی دیا ہے ۔

دوسری جانب صاحبِ فتوی نے اس متنازع رائے سے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر صبری کے مطابق انہوں نے ایسی بات نہیں کہی اور ان کی بات کو سیاق سے قطع کر کے شائع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صبری کے مطابق وہ تو ایک صحافی کے سوال کا جواب دے رہے تھے جو اس حوالے سے پوچھا گیا تھا کہ ایک عرب عالم نے فتوی جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اس عمل کو جائز قرار دیا۔ ڈاکٹر صبری کے مطابق یہ عمل شرعا حرام ہے تاہم وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اخبار کے حوالے سے یہ فتوی سوشل میڈیا پر ان سے منسوب کر کے پھیلایا جا رہا ہے

تاہم اس حوالے سے تاحال مصر کے اسلامی حلقوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے اور لوگ اس اضطراب کا شکار ہیں کہ اس قسم کے فتوؤں کے ذریعے لوگوں میں اسلام کی تعلیمات اور اس کے تشخص کو مجروع کیا جارہا ہے

To Top