فیشن کی دنیا میں جدت کے نام پر پاکستانی ماڈلز نے ایسا کیا کر ڈالا کہ سب آگ بگولہ ہو گئے

پاکستان کی فیشن انڈسٹری اس وقت تیزی سے پھلتی پھولتی صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور اس دوڑ میں شامل لوگ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیۓ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ان کا مطمع نظر صرف اور صرف دوسرون سے الگ نظر آنا ہوتا ہے تاکہ وہ عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کر سکیں

ماضی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ کھاؤ من بھاتا اور پہنو جگ بھاتا اور جب بھی کسی نے دنیا کی پروا چھوڑ کر ایسا لباس زیب تن کیا جو کہ لوگوں کو پسند نہیں آیا تو عوام نے ہمیشہ ایسے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا مگر اس کے باوجود منفرد نظر آنے کی خواہش لوگوں کو بار بار ایسے لباس زیب تن کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ لوگ ان کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں


ایسے ہی کچھ حالات اس وقت پیدا ہوۓ جب پاکستان کے ایک مشہور معروف برانڈ نے مختلف ڈیزائنرز کے ڈیزائن کردہ ایک فیشن شو کا اہتمام کیا جس میں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے ملاپ کے ساتھ ساتھ جدت سے ایسے لباس تخلیق کیۓ تھے جو کہ دیکھنے والوں کے نگاہوں کو خیرہ کر رہے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لباس بھی تھے جن کو دیکھنے والے دیکھ کر تنقید کیۓ بنا نہ رہ سکے جیسے کہ مائرہ خان کا یہ لباس جس میں انہوں نے ساڑھی کے اوپر ایک نئی جدت کرنے کی کوشش کی

اس کے بعد ایک اور ماڈل جب ریمپ پر اۓ تو ان کو دیکھ کر شائقین حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکے جنہوں نے جو پرنٹڈ شارٹ شرٹ اور کھڑا پاجامہ پہن رکھا تھا اس کے اوپر ویسٹ کوٹ پہنے اس ماڈل کو دیکھ کر خیال آرہا تھا کہ جیسے رات کے لباس میں کوئی انسان بستر سے اٹھ کر آگیا ہے ۔

اس کے بعد منفرد نظر آنے کے شوق میں ایک ماڈل اپنے لباس پر قائد اعظم کی تصویر چھاپ کر پہن آئیں جس کو سوشل میڈیا صارفین نے بھی بہت تنقید کا نشانہ بنایا کہ قائد اعظم جیسی معزز ہستیوں کا استعمال فیشن شوز میں اس طرح کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے

اس کے بعد ایک اور ڈیزائنر جو کہ مردوں کے پہناؤۓ ڈیزائن کرنے میں ماہر ہیں انہوں نے مردوں کے لباس میں جس طرح رنگوں کا استعمال کیا انہوں نے ان ماڈلز کو جوکر بنا ڈالا

اس لباس کو دیکھ کر تو ہمیں خود بھی سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کس موقعے کے لیۓ ڈیزائن کیا گیا ہے ہمارے ڈیزائنرز کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیۓ کہ لباس وہی بہترین ہوتا ہے جس کے پہننے کے بعد انسان کی شخصیت اچھی لگے مضحکہ خیز نہ لگے

عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ معصوم بچوں کو تو کارٹون والے لباس پہنا دیۓ جاتے ہین مگر بڑے لوگ اس قسم کے لباس پہنے سے اجتناب برتتے ہیں مگر ماضی قریب سے ایک تو ایسے کپڑے کا استعمال کیا جارہا ہے جس پر مختلف زبانوں کی تحریریں موجود ہوتی ہیں مگر اس ماڈل کے لباس میں جس کپڑے کا استعمال کیا گیا اس پر موجود کارٹون کی تصویریں دیکھ کر ہونٹ مسکراۓ بنا نہیں رہ سکے

عام طور پر گھریلو خواتین جو سلائی کی ماہر ہوتی ہیں سلائی ہونے والے کپڑوں کی کترنیں جمع کر کے رکھتی رہتی ہیں اور جب بہت ساری کترنیں جمع ہو جاتی ہیں تو پھر ان کو ملا کر ٹیکنی کلر سا لباس تیار کر لیا جاتا ہے جو گھر کے سب سے چھوٹے بچے کو پہنایا جاتا ہے جس کو رنگوں کا شعور نہیں ہوتا ہے ۔ اس لباس کو دیکھ کر بھی کچھ ایسا ہی خیال آرہا ہے

یہ تو صرف ایک ہی فیشن شو کی جھلک تھی اگر ہمارے ڈیزائنر ایسے ہی لباس ڈیزائن کر کے ان کو فخریہ انداز میں پیش کرتے رہیں گے تو پھر ہماری فیشن انڈسٹری کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔

 

To Top