کیا آپ جانتے ہیں کہ کن اوقات میں دعا لازمی قبول ہوتی ہے؟

دعا اللہ اور بندے کے درمیان کا وہ تعلق ہے جو کہ انسان کا اللہ پر یقین اور اعتقاد میں نہ صرف اضافے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو روحانی طور پر سکون اور یقین کی طاقت سے سرفراز کرتا ہے ۔دعا درحقیقت انسان کا اللہ سے وہ کلام ہوتا ہے جو وہ دنیا کے دوسرے لوگوں سے نہیں کر پاتا ۔

اللہ کی بارگاہ میں انسان کی جانب سے سوال اٹھانا ہمیشہ بہت قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے اور اللہ تعالی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ بندہ اس کے سامنے دست دعا دراز کرے تاکہ وہ اپنی رحمتوں اور برکتوں سے اس کو نواز سکے ۔ دعا کی ایک صورت اللہ کی ان نعمتوں اور برکتوں کا شکر بھی ہوتی ہے جو کہ بندہ اس خالق حقیقی کا ادا کرتا ہے جن سے اس کو بن مانگے نوازا گیا ہے ۔

دعا مانگنے کا حکم بار بار قرآنی آیات و احادیث سے ثابت ہے اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے انسان کی رہنمائی بھی کی ہے کہ کن اوقات میں مانگی جانے والی دعا اللہ کی بارگاہ میں لازمی قبولیت کے درجے سے سرفراز ہوتی ہے ان اوقات کے متعلق رہنمائی مختلف احادیث سے ثابت شدہ ہے

تہجد کے وقت مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ صحیح بخاری

تہجد کے وقت مانگی جانے والی دعا اللہ کو بہت پسند ہے کیونکہ اس وقت انسان اپنی عزیز ترین چیز نیند کو قربان کر کے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے لہذا اللہ نہ صرف اس دعا کو سنتا ہے بلکہ قبول بھی کرتا ہے ۔

سجدے کی حالت میں مانگی جانے والی دعا۔  صحیح مسلم

جب انسان اللہ کی بارگاہ میں اپنی پیشانی جھکاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے اپنا آپ اللہ کے حوالے کر دیا، اللہ کو انسان کی یہ عاجزی بہت پسند ہے لہذا اس وقت مانگی جانے والی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔

اذان اور اقامہ کے دوران۔ صحیح ترمزی

احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جس وقت اذان کی آواز آپ کے کانوں تک پہنچتی ہے تو اس کو سننا اور اس کا جواب دینا مستحب ہے کیونکہ اسی دوران ایک پل ایسا بھی ہوتا ہے جس میں مانگی جانے والی دعا لازمی مستجاب ہوتی ہے ۔

بارش کے دوران۔ ابن ماجہ اور ابو داؤد

بارش کو اللہ کی رحمتوں سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ خوش ہوتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے کہ اس وقت اس کے سامنے کوئی دست سوال دراز کرے اور وہ اس کو نواز سکے۔

 افطار کے وقت۔ ترمزی

روزہ وہ عبادت ہے جس کے بارے میں خالق حقیقی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اس کا صلہ وہ خود دے گا تو پھر کیسے یہ ممکن ہے کہ بندہ سارے دن کے روزے کے بعد اللہ سے کچھ مانگے اور اللہ اس کو نہ دے۔

درود شریف پڑھنے کے بعد

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ تم بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود اور سلام بھیجو میں بھی بھیجتا ہوں ۔یہ بات ثابت شدہ ہے کہ درود شریف وہ کلام ہے جو کہ لازمی طور پر بارگاہ خداوندی میں قبولیت کے درجے پر پہنچتا ہے۔ لہذا جو دعا درود شریف کے ہمراہ مانگی جاتی ہے اس کی قبولیت میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انسان بہت بے صبرا واقع ہوا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ جو دعا اس نے مانگی وہ فوری طور پر پوری ہو جاۓ مگر یہ یاد رکھنا چاہۓ کہ اللہ حکیم و بصیر ہے اس کی بصارت جہاں تک ہے اس تک ہماری پہنچ نہیں ہے لہذا اگر کوئی دعا ظاہری طور پر پوری نہ ہو رہی ہو تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ اللہ ہماری سن نہیں رہا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اس کی قبولیت میں کوئی تاخیر ہوئي ہے تو اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہو گی

To Top