ہمارے بجے درحقیقت اسی رویۓ کا اظہار اپنی زندگی میں کرتے ہیں جس کا سبق انہوں نے اس معاشرے سے حاصل کیا ہوتا ہے ۔ معاشرے میں ظلم لالچ اور حرص و ہوس کو پروان چڑھا کر ہم یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ ہماری آئندہ نسل فرشتوں کی سی ہو گی ۔ جس خودغرضی کا بیچ یہ معاشرہ اپنی آئندہ نسل کی جڑوں میں بو رہا ہے آنے والے وقت میں اسی کی فصل کاٹی جاۓ گی
راولپنڈی کے علاقے ڈھوک کالا خان راولپنڈی کے علاقے میں بھی معاشرے کے بدترین رویوں کا پھل سامنے آیا جس کے سبب ایک معصوم نوجوان بچہ ذیشان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تفصیلات کے مطابق ذیشان نامی لڑکے کو اس کے گھر سے اس کے تین دوست کرکٹ کھیلنے کے بہانے گھر سے بلا کر لے گۓ
ان لڑکوں میں نعمان ،آکاش اور موسی شامل تھے نعمان اور آکاش آپس میں بھائی بھی تھے اور ذیشان کے ہم جماعت بھی تھے جب کہ موسی گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ان تینوں لڑکوں نے ذیشان کے ساتھ مل کر پلان بنایا کہ افطار کے بعد تراویح کےبہانے گھر سے نکلیں گے اور اس کے بعد اسلام اباد ایکسپریس وے اور ڈھوک کالا خان کے درمیان موجود گراونڈ میں کرکٹ کھیل کر واپس آجائیں گے
اس دوران گھر والے یہی سمجھتے رہیں گے کہ ہم تراویح پڑھ رہے ہیں مگر دوسری جانب ان تینوں لڑکوں کے ذہن میں ایک ظالمانہ منصوبہ بھی چل رہا تھا ذیشان مالی طور پر ان سب لڑکوں سے بہتر تھا ۔ان لڑکوں نے منصوبہ بنایا کہ ذیشان کے ذریعے اس کے والد سے پیسے وصول کیۓ جا سکتے ہیں اور اس طرح اپنی ناتمام خواہشات کی تکمیل کی جا سکتی ہے
اسی سبب یہ تینوں لڑکے اول تو بہانے سے ذیشان کو ایک سنسنان جگہ پر لے کر گۓ اور اس کے بعد تینوں لڑکوں میں سے ایک نے پیچھے سے ذیشان کے سر پر بلے سے زور دار ضرب لگائی جس سے ذیشان بے ہوش ہو گیا اس کے بعد ایک لڑکا اپنے گھر سے چھری لے کر آیا اور اس چھری سے ذیشان کو ذبح کر ڈالا
ذیشان کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد ذیشان کی لاش کو ایک گڑھے میں پھینک کر ٹھکانے لگا دیا اس ساری کہانی کا سب سے تکلیف دہ پہلو ذیشان کے قتل کے بعد شروع ہوتا ہے ذیشان کو قتل کرنے کے بعد ان لوگوں نے ایک خط ذیشان کے والدین کے نام تحریر کیا جس میں ان سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی رقم کا تقاضا کیا
ان کو بتایا کہ اہ ان کا بیٹا ذیشان ان کے پاس ہے جس کی رہائی کے عوض وہ یہ رقم ادا کر دیں اور اکر انہوں نے پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ذیشان کو مار ڈالا جاۓ گا اس خط کے ساتھ انہوں ن ہاتھ کاک بنا ہوا ایک نقشہ بھی دیا اس نقشے کے مطابق مقررہ وقت پر پیسے ایک کالے شاپنگ بیگ میں ڈال کر رکھ دیں
جب اس حوالے سے والدین نے پولیس کو آگاہ کیا تو پولیس نے ان کو مشورہ دیا کہ اغوا کاروں کے مطالبات تسلیم کر لیۓ جائیں تاکہ ذیشان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو اس کے بعد جب رقم مقررہ جگہ پر رکھی گئی تو پولیس نے اس جگہ کی خفیہ نگرانی شروع کر دی ۔ تقریبا ایک گھنٹے کے بعد ایک کم عمر لڑکا آیا اور اس نے اس جگہ سے پیسوں کا لفافہ اٹھایا ۔
پولیس کو لگا کہ یہ لڑکا کسی کا آلہ کار ہے اور اس خیال سے انہوں نے اصل مجرم تک پہنچنے کے لیۓ اس لڑکے کا پیچھا شروع کر دیا مگر تھوڑے فاصلے کے بعد اس لڑکے نے بھاگ کر تنک و تاریک گلیوں میں غائب ہونے کی کوشش کی مگر پولیس نے اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی
اس لڑکے کی گرفتاری کے بعد پولیس پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ ذیشان اب اس دنیا یں نہیں ہے اور ان لڑکوں نے اس کو پہلے دن ہی ہلاک کر ڈالا تھا ان کم عمر لڑکوں کی جانب سے اس طرح کی واردات معاشرے کے نوجوان طبقے میں بڑھتے ہوۓ متشدد رویے کو ظاہر کرتا ہے
اس کے بعد تینوں لڑکوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کی نشاندھی پر ذیشان کی لاش بھی دریافت کر لی گئی ماہرین نفسیات کے مطابق نوجوان لڑکوں میں اس قسم کے واقعات کا سبب نفسیاتی عارضہ ہوتا ہے جس کے سبب یہ لڑکے تشدد کے ذریعے اپنی تمام نا تمام خواہشات کی تکمیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں