پاکستانی سیاست میں آج کل 2 نومبر کے نام سے ہر جانب ہل چل مچی ہوئی ہے۔ ہر فرد جاننا چاہتا ہے کہ اس دن کیا ہو گا؟ کیا عمران خان اسلام آباد پر قبضہ کر لے گا؟ کیا اس کے کارکن ہر اہم عمارت پرقابض ہو جائیں گے ؟ ان کے اس قبضے کے سبب نواز شریف استعفا دے دے گا؟ یا نواز شریف اپنی تمام چوریاں قبول کر کے سود سمیت سارا پیسہ لوٹا دے گا؟
یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو بنی گالہ سے نکلنے ہی نہ دیا جاۓ اور اس کے کارکن بھی انتہائی کم تعداد میں اسلام آباد تک پہنچ پائیں اور کچھ بھی نہ کر پائیں اور ناز شریف شام کو آکر قوم کو بتاۓ کہ عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی تھا ہی نہیں۔ اس لئے اب یہ ثابت ہو گیا کہ میں نے آپ کا کوئی پیسہ نہیں کھایا جو کھایا اپنے باپ کا کھایا ،
ایک کام اور بھی ہو سکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف جن کے پہلے ہی حکومت سے اختلاف چل رہے ہیں اور جن اختلاف کو کم کرنے کے لئے نواز شریف اپنے قریبی ساتھی پرویز رشید کی قربانی بھی دے چکے ہیں ۔وہ اس قربانی کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اور مطالبہ کریں کہ ان کو بادشاہ سلامت کا ہی سر چاہئے اس سے کم لیول کی قربانی قبول نہ ہو گی۔
حکومتی مشنری اور اپوزیشن کے اس ٹکراؤ کے سبب ملک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے ۔حکومتی صفوں میں پرویز رشید جیسی ملک اور فوج دشمنی کی حامل شخصیت کی موجودگی نے حکومت کی وفاداری پر ایک سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے ۔ایسے حالت میں فوج کی جانب سے ایمرجنسی کا نفاذ قرین قیاس نہیں ہے ۔کیوںکہ اسی صورت میں ملک کو ملک دشمن عناصر سے پاک کر کے ایک نۓ پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
عوام اس ساری صورت حال میں شش و پنج میں مبتلا ہیں ۔ حکو مت کو چاہۓ کہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوۓ جلد از جلد اس غیر یقینی کی صورت حال کا خاتمہ کرۓ۔ کیوںکہ سرحدوں پر موجود ہمارہ دشمن ہماری اس صورت حال سے کسی وقت بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
کوروناریلیف ٹائیگر فورس،2 لاکھ سے زائد نوجوان مشن کا حصہ ،فراڈے بھی سرگرم