پھانسی کے منتظر ایک ایسے مجرم کی سچی داستان جو بیک وقت ظلم و مظلومیت کی انتہا پر تھا

لوگ جیل کی کوٹھڑی کو کال کوٹھڑی کہتے ہیں کیوںکہ اس میں بہت تاریکی ہوتی ہے اور اس انسان کے لیۓ تو یہ کوٹھڑی مذید تاریک ہو جاتی ہے جس کو پتہ ہوتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد اس کی زندگی کا سفر اس کوٹھڑی سے پھانسی گھاٹ تک جا کر ختم ہو جاۓ گا

مجھ پر الزام ہے کہ میں نے اپنے سگے باپ کو چھریوں کے چالیس وار کر کے بدترین طریقے سے موت کی گھاٹ اتار دیا ۔پیشے کے اعتبار سے میں ایک ڈرائیور تھا میں ٹرک چلاتا تھا اور کام کے سلسلے میں مجھے اکثر گھر سے باہر دوسرے شہروں میں جانا پڑتا تھا ۔

میری ایک ڈیڑھ سال کی بیٹی بھی تھی مگر مجھے اس بات کی تسلی ہوتی تھی کہ گھر میں میری بیوی کی دیکھ بھال کے لیۓ میرے والد موجود ہیں جن کے آسرے پر میں اپنی بیوی اور بیٹی کو چھوڑ کر چلا جاتا تھا ۔ اس دن بھی مجھے کچھ سامان لیجانے دوسرے شہر جانا تھا مگر میری بیوی مستقل یہ ضد کر رہی تھی کہ میں نہ جاؤں ۔

میں نے اس کی بات کو عورت کی ضد سمجھا اور سمجھا بجھا کر اس کو روتے ہوۓ چھوڑ کر اپنے والد کو اس کا خیال رکھنے کا کہہ کر گھر چھوڑ گیا مجھے کیا پتہ تھا کہ میں راہزن ہی کو راہبر بنا کر جا رہا ہوں

میں جب گھر واپس پہنچا تو سپیدہ سحر ابھی پوری طرح نمودار نہ ہوا تھا میں نے اپنے پاس موجود چابی سے گھر کا دروازہ کھولا جب اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو وہاں کا منظر دل دہلا دینے والا تھا میری بیٹی سو رہی تھی اور میری بیوی کی لاش پنکھے سے جھول رہی تھی کمرے کی بے ترتیبی کوئی اور داستان بیان کر رہی تھی ۔


پلنگ کی سائڈ ٹیبل پر ایک کاغذ کا پرزہ پڑا تھا جس میں میری بیوی نے مرنے سے قبل میرے لیۓ ایک خط لکھا ہوا تھا

میرے پیارے عزیز :

میں نے آپ کو کتنا روکا تھا کہ نہ جائیں میری مجبوری تھی کہ میں آپ کو وہ سب نہیں بتا سکتی تھی جس کا سامنا مجھے آپ کے جانے کے بعد کرنا پڑتا تھا ۔ اور اگر میں بتا بھی دیتی تو آپ کبھی بھی میری بات پر یقین نہ کرتے اور کوئی بیٹا یہ یقین بھی کیسے کر سکتا ہے کہ اس کا باپ اس کی بیوی یعنی اپنی بہو پر بری نظر رکھتا ہے ۔ ایسا ہر اس رات ہوتا تھا جب بھی آپ کام سے باہر جاتے تھے آپ کے ابو میرے کمرے میں آجاتے اور سوتی حالت میں میرے جسم پر ہاتھ پھیرتے جب مجھے اس بات کا پتہ چلا تو میں نے کمرہ اندر سے لاک کرنا شروع کر دیا تھا

مگر دن کے باقی حصوں میں تو مجھے باہر آنا پڑتا تھا ۔دنیا کی نظر میں وہ ایک پرہیز گار نمازی انسان تھے مگر مجھے دیکھ کر نہ جانے ان کو کیا ہو جاتا ۔کل آپ کے جانے کے بعد جب میں منی کا دودھ بنانے کچن میں آئی تو انہوں نے مجھے پیچھے سے دبوچ لیا اور دھکیلتے ہوۓ اپنے کمرے میں لے گۓ وہاں لے جا کر انہوں نے اپنے بیٹے کی عزت کو بے آبرو کر دیا میں جانتی ہوں کہ آج آپ آجائیں گے مگر میں خود میں آپ کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں پاتی تبھی آپ کے آنے سے پہلے موت کو گلے لگا رہی ہوں

خط پڑھتے ہی میں غیض و غضب کا شکار ہو کر باورچی خانے سے چھری اٹھا کر اپنے والد کے کمرے کی جانب بڑھا وہ وہاں نہیں تھے میں ان کی تلاش میں گھر سے باہر نکلا تو وہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے ۔

میں نے ان کو وہیں پر پکڑ لیا اور چھریوں کے پے در پے وار کرنے شروع کر دیۓ اور ان کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ وہاں موجود نمازیوں نے مجھے زبردستی پکڑ کر ان سے دور نہ کر دیا ۔ اس کے بعد کیس چلا مگر میری دنیا تو اندھیر ہو چکی تھی

میں نے کیس میں کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا میں نہیں جانتا کہ میری بیٹی کہاں ہے اور اس کو کس نے گود لے لیا ہے کبھی میں سوچتا ہوں میں نے بالکل درست کیا اور کبھی مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے زیادہ بدترین انسان کوئی نہیں جس نے اپنے سگے باپ کو قتل کر دیا

اب جیل کی کال کوٹھڑی میں پھانسی کا منتظر ہوں اللہ کے گھر جانے کے بعد ہی مجھے پتہ چلے گا کہ میں نے صحیح کیا یا غلط آپ کو کیا لگتا ہے ؟؟

To Top