قبائلی روائتوں اور فرسودہ رواجوں کے ظلم کی داستان

انسانی محبتوں اور رشتوں کو مال کی محبت اور جائداد کی طلب دیمک کی طرح کھا جاتی ہے یہ میں نہیں کہتا بلکہ تجربے سے ثابت ہے ۔ انسان جتنا بھی پیسے والا ہو جاۓ مگر اس کے اندر سے مال کی محبت اور ہوس کبھی کم ہونے ہی میں نہیں آتی

آج جب میرے دادا کے سامنے ان کے تین جوان بیٹوں کے لاشے پڑے تھے سفید کفن اوڑھے تین لعل جن کی عمریں اٹھائیس ، پینتیس اور چالیس سال تھیں ۔ تین ایسے جوان جنازے اٹھانے والے باپ کی حالت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے اس قیامت کا سامنا کیا ہو۔ ابھی تو اس گھر سے شادی کی رسموں کے پھول بھی نہیں اٹھاۓ گۓ تھے کہ جنازے اٹھانے کا وقت آن پہنچا تھا

میرے والد میرے دادا کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا میری عمر صرف پندرہ سال تھی جب کہ میرے چھوٹے چچا کی صرف ایک ہی چھ سالہ بیٹی تھی اور اس سے چھوٹے چچا کی تو شادی کو ہی صرف چند دن ہوۓ تھے

۔میری دادی دکھ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اسے کوئی ہوش نہ  تھا ۔ میرے دادا کا اپنے سگے بھائی کے ساتھ زمینوں کے تنازعے میں جھگڑا چل رہا تھا ۔ اس دن عدالت میں پیشی کے موقعے پر جب میرے والد اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ عدالت پہنچے تو وہاں ابو کے چچا کے بیٹے نے گولیاں چلا کر میرے دادا کی پوری نسل کو ایک پل میں ختم کر ڈالا ۔

جائدادوں کے اس جھگڑے میں قصور وار لوگ میرے دادا کو ہی گردانتے تھے جنہوں نے اپنے تین بیٹوں کی مدد سے نہ صرف اپنے چھوٹے بھائی کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کے گھر کی غربت کو دیکھتے ہوۓ اس پر دل دکھانے کے بجاۓ اس کے خلاف مقدمہ بھی کر ڈالا تھا

جس انسان کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو وہ عدالتوں کے پیسے کیسے دے سکتا ہے تبھی اس کے اکلوتے بیٹے نے یہی بہتر سمجھا کہ میرے دادا کے سارے چراغ ہی بجھا ڈالے جس پر ان کو بہت فخر تھا اب میرے دادا نے اپنا بازؤ میرے کاندھے پر رکھا ہوا تھا ۔

مجھے میری ماں نے ہمیشہ اس ماحول سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی ہمارے گھر کی ساری عورتیں ایسی ہی تھیں ۔ مردوں کو جائدادوں کی اس ہوس سے روکنے والی مگر مرد کہا کرتے تھے کہ یہ عورتیں ہمیں بزدلی کا سبق پڑھاتی ہیں

اب اس ہوس نے جب سب کچھ تباہ و برباد کر دیا تھا میرے دادا کی نظریں اب مجھ پر تھیں وہ چاہتے تھے کہ میں اب ان کے تینوں بیٹوں کے خون کا بدلہ اپنے باپ کی چچا کے پانچ سالہ پوتے سے لوں انہوں نے تو مجھے یہاں تک کہا کہ اگر میں چاہوں تو وہ میرے لیۓ علاقہ غیر میں جگہ کا بندوبست کر دین گے

میں اس پانچ سالہ معصوم بچے کو اغوا کر کے وہاں لے جاؤں اور اس کے دادا کو بھی وہی دکھ دوں جس کا سامنا میرے دادا کر رہے ہیں اس کام کے لیۓ وہ مجھے تمام سہولیات مہیا کرنے کو تیار ہیں ۔ میں نے ان سے اس بات کے لیۓ ایک شرط رکھی کہ وہ گاؤں میں لڑکے اور لڑکیوں کے ہائی اسکول کی تعمیر کی اجازت دے دیں جس کو انہوں نے کئی دہائیوں سے روک رکھا تھا

اس کے بعد میں نے ان کے کہنے پر نہ صرف اس معصوم بچے کو اغوا کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ماں کو بھی لے لیا اور کراچی آکر مزدوری شروع کر دی اپنے ابو کے چچا کو فون کر کے بتا دیا کہ اگر یہ بچہ ان کے ساتھ رہا تو مار دیا جاۓ گا

اس لیۓ اس کو میرے پاس رہنے دیں اب میں کراچی میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہوں میں نے اپنا نام بھی بدل لیا ہے اس بچے کو میں نے اسکول میں داخل کروا دیا ہے میں اپنے پیچھے سادی دولت ساری جائیداد چھوڑ آیا ہوں

میرا خواب ہے کہ اپنے ابو کے قاتل کے بیٹے کو پڑھا کر اس دلدل سے نکال سکوں تاکہ اور کسی کا گھر ایسے نہ اجڑے ۔کوئی اور میری طرح یتیم و بے سہارا نہ ہو

To Top