اسلام علیکم،
راشد صاحب!
میں ایک ریٹائرڈ گونمنٹ افسر ہوں اور میری عمر لگھ بھگ 65 سال ہے۔ میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ ریٹایرمنٹ کے بعد میرے دن رات اللہ کی عبادت میں گزرتے ہیں یا گھر کے چھوٹے موٹے کام کاج میں۔
ماہ رمضان شروع ہو چکا ہے لیکن اس سال معاملہ یقین کچھ مختف ہے کرونا وائرس کی وجہ سے آج کل میں نماز گھر پر پڑھ رہا ہوں۔ اکثر چھوٹے موٹے کام بھی اسی وجہ سے ٹال دیتا ہوں۔
ہمارے محلے میں تراویح کا انتظام کیا گیا ہے لیکن مجھے وائرس کا ڈر ہے ۔ گھر والوں کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ کیوں کہ میری عمر کچھ زیادہ ہے تو میں گھر پرہی رہوں۔
میرا سوال ہے کہ کیا بیمار ہونے کے ڈر کی وجہ سے میری عبادت گھر پر کرنا غلط ہے۔ آخر موت سے تو سب کی ڈرتے ہیں۔ کیا ایسی حالت میں مجھے گناہ ملے گا
ایک ضعیف شخص
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
محترم ضعیف شخص
متعدد احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شدید بارش یا تیز آندھی طوفان کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھروں میں نماز کا حکم دیا جاسکتا ہے چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا «ألا صلوا في الرحال» کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو پھر فرمایا:
إنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ ومَطَرٍ، يقولُ: ألَا صَلُّوا في الرِّحَالِ(صحيح البخاري:666)
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔
اسی طرح صحیح بخاری (668) میں مذکور ہے
کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے جمعہ کے دن خطبہ سنایا اور بارش وکیچڑ کی وجہ سےموذن کو یہ حکم دیا کہ اذان میں آج «حى على الصلاة» کی جگہ یوں پکار دو «الصلاة في الرحال» کہ نماز اپنی قیام گاہوں پرہی ادا کر لو۔
جب لوگوں نے آپ کے اس عمل پر تعجب کیا تو انہوں نے کہا:
كَأنَّكُمْ أنْكَرْتُمْ هذا، إنَّ هذا فَعَلَهُ مَن هو خَيْرٌ مِنِّي، – يَعْنِي النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ – إنَّهَا عَزْمَةٌ، وإنِّي كَرِهْتُ أنْ أُحْرِجَكُمْ۔
ترجمہ:
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ «حى على الصلاة» کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں)
اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں البتہ انہوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
كَرِهْتُ أنْ أُؤَثِّمَكُمْ فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إلى رُكَبِكُمْ.
ترجمہ:
مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو۔
صحیح بخاری کی ان دونوں احادیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا کہ بارش اور کیچڑ کی وجہ سے بستی اور محلے کے سارے لوگ مسجد کی بجائے اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرسکتے ہیں ، یہ اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آسانی ہےتاکہ مشقت سے بچا جا سکے، اسلام آسانی کا نام ہے ۔ان احادیث سے ایک اہم نقطہ یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ جب محض جسمانی مشقت کی وجہ سے شریعت ہمیں شدیدبارش کے وقت گھروں میں نماز ادا کرنے کی اجازت دیتی ہے تو جہاں جان کا خطرہ ہو وہاں گھروں میں نماز ادا کرنا بدوجہ اولی جائز ہوگابلکہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے عمل کو دیکھا کہ انہوں نےبارش کی وجہ سے نماز جمعہ سے بھی لوگوں کو روکا اور اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا اور اس عمل کو سنت رسول بتایا۔
مزید پڑھیں: اسلام میں کورونا وائرس سے بچاؤ حاصل کرنے کا انتہائی آسان طریقہ
جان تو بڑی چیز ہے، اس کو ہلاکت میں ڈالنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور کرونا وائرس سے جان کا خطرہ ہے ۔
ایک شخص جس کے متعلق حتمی طور پر معلوم ہے کہ اس کو وہائی مرض ہے اس سے دوری اختیار کی جاسکتی ہے جیساکہ نبی ﷺ نے ایک مجذوم( جس شخص کو جذام ہو) سے بیعت نہیں کی لیکن جب لوگوں کے بارے میں معلوم ہی نہ ہو کہ کون مریض ہے اور کون نہیں وہاں مسئلے کا حل یہی ہے کہ لوگوں کو جمع ہونے سے روکا جائے ۔
کرونا وائرس کے ڈر سے مساجد بند کرنا
٭جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کرونا کے خوف سے مساجد بند کرنا اور گھروں میں نماز پڑھنا ایمان کی کمزوری ہے اور یہ اللہ پر توکل کے خلاف ہے ان سے عرض ہے کہ جہاں ہلاکت کا اندیشہ ہو وہاں ہلاکت سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنانا نہ تو ایمان کی کمزوری ہے اور نہ ہی توکل کے خلاف ہے ۔ اس سے نہ تو نماز کی اہمیت گھٹتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ساقط ہوتا ہے ، نماز تو کسی حال میں معاف ہی نہیں ہے ، پھر نماز پڑھنے والا خود کو کمزورایمان والا کیسے کہہ سکتا ہے اور اس کا توکل اللہ پر کیسے برقرار نہیں رہ سکتا ؟ کیا تدبیر اختیار کرنا توکل کے منافی ہے اور کیا وقتی طور پر چند ایام گھروں میں نماز ادا کرنے سے ایمان کمزور ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں ۔ دراصل کوڑھی سے بھاگنے کا حکم نبوی تدبیر ہی ہے جو توکل کے خلاف نہیں ہے اور “صلوا فی الرحال “عذر کےوقت صحابہ کا عمل ہے جو ایمان کی کمزوری نہیں ہے ۔
لہذٰا آپ گھر پر نماز ادا کرسکتے ہیں اور ان شاءاللہ تعالیٰ گناہ گار نہیں ہوں گے۔
شکریہ
سید محمد راشد علی رضوی
سید محمد راشد علی رضوی ایک اسلامک اسکالر ہیں۔ آپ تقریبا ۳۱ سال سے مختلف اداروں میں تدریس سے وابستہ رہے ہیں۔
اپنے مسئلے کو تفصیل سے بیان کریں اور اپنے سوالات اس ہفتہ وار کالم کیلیے ask@parhlo.com پر بھیجیں ۔ Point of Deen سبجیکٹ لا ئن میں لکھیں۔
نوٹ: اس کالم میں دی گئی رائے یا مشورہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ادارہ ” پڑھ لوڈاٹ کام ” ان خیالات کی عکاسی کریں