کیپٹن روح اللہ: سانحہ کوئٹہ کا جوان شہید

کبھی کبھی ماؤں کے گھر ایسے بیٹے جنم لیتے ہیں جو صرف اس ماں ہی کے لئے نہیں بلکہ دھرتی ماں کے لئے بھی قابل فخر ہوتے ہیں ، ایسا ہی ایک بیٹا روح اللہ بھی تھا ۔ شبقدر ، چارسدہ کے  ایک گھر میں جب اس نے جنم لیا ہو گا تو قرابت داروں اور محلہ داروں سے مبارکباد لیتے ہوۓ ان کے والد نجیب اللہ کےتو گمان بھی نہ ہو گا کہ جس بیٹے کی آج پیدائش کی مبارکباد وصول کر رہے ہیں ۔چھبیس سال بعد اسی جگہ پر اس کی شہادت کی مبارکبادیں وصول کریں گے۔

capton-640x480

Source: Sindh News Online

اس کے والد نے ابتدائی تعلیم کے لئے اسے اسلامیہ کالج بھیجا اور پھر حیات آباد میڈیکل کالج ،یہاں سے باپ بیٹے کی کشمکش کا آغاز ہوا۔ باپ اپنے اس ہونہار سپوت کو ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا مگر بیٹا تو کسی اور راہ کا مسافر تھا ۔ اس کی نگاہ تو  کسی اور منزل پر مرکوز تھی۔ وہ بھی دکھی  انسانیت کی خدمت کرنا چاہتا تھا مگر ایک مجاہد کی طرح، آخرکار باپ نے بیٹے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ 2009 میں روح اللہ نے فوج میں کمیشن حاصل کر لیا ۔

جب کوئی اپنے من پسند شعبے کا انتخاب کر لیتا ہے تو پھر اس کو آگے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا، یہی معاملہ روح اللہ کے ساتھ بھی تھا ۔وہ چاہے آرمی پبلک کا محاذ ہو یا باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کا بچھایا ہوا جال، یا پھر کرسچن کالونی کے بے گناہوں کو بچانے کا معاملہ وہ ہر جگہ فوج کے ہر اول دستے کے ساتھ موجود رہا۔ وہ مجاہد ہر جنگ کا غازی رہا۔

28 ستمبر کو جب اس کی پوسٹنگ بلوچستان میں ہوئی تو اس نے اپنے گھر والوں کو یقین دلایا کہ دسمبر تک وہ چھٹیاں لے کر آجاۓ گا تاکہ اس کے سہرے کے پھول کھلاۓ جا سکیں ۔مگر کسے معلوم تھا کہ ا س کے سہرے کے پھول اس دنیا کی مٹی میں نہیں کھلنے، وہ تو جنت کو مہکانے کے لئے کھلنے تھے۔ یہاں تو وہ پھول کھلنے تھے جنہوں نے اس کی قبر کی مٹی کو مہکانا تھا ۔

Source: Facebook

جب روح اللہ کو کوئٹہ پولیس ٹریننگ کیمپ پر حملے کی اطلاع ملی ، وہ اپنے ساتھیوں اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے آگے بڑھا۔ اس کی بہادری کی گواہی ہر دیکھنے والے نے دی کہ اس نے کس طرح اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ان ظالموں کو جہنم واصل کیا۔ مگر بدقسمتی سے ایک بزدل کے بزدلانہ وار کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گیا ۔ ہسپتال پہنچ کر وہ جانبر نہ ہو سکا ۔ وطن کی مٹی کا قرض اس نے ادا کر دیا ۔ آرمی چیف نے اسے فوج کے چوتھے بڑے ایوارڈ ستارہ جرات سے نوازنے کا اعلان کیا ۔ مگر وہ شہادت کا تمغہ سینے پر سجاۓ ہر انعام سے بڑا انعام حاصل کر چکا تھا ۔

بیشک شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔

پاک فوج کے 36 بریگیڈئیرز کی میجر جنرل کے عہدے پر ترقی،پہلا سندھی میجر جنرل بھی شامل

To Top