کال گرل معاشرے کا وہ کردار جس کی کہانی ہم سب کے لۓ شرمندگی کا سبب ہے

ہمارے معاشرے میں کال گرل یا جسم فروش عورت کا نام آتے ہی سننے والے کی پیشانی پر نفرت اور حقارت کی لکیریں پڑ جاتی ہیں ۔ ہمارے نزدیک اس عورت سے بدتر کوئی نہیں ہوتا جو کہ اپنے جسم کا سودا کر کے پیسے کماتی ہے ۔مگر ہم نے کبھی یہ جاننے کی جدوجہد نہیں کی کہ وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جو ایک عورت کو اتنا مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی عزت کا سودا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔

ایسی ہی ایک لڑکی کی کہانی جو کہ معاشرے میں کال گرل کے نام سے پہچانی جاتی ہے بیان کی جارہی ہے ۔وہ لڑکی جو کہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لۓ ہر رات چند روپوں کے عوض اپنے آپ کو اجنبی لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے تاکہ وہ اس کے جسم سے اپنی ہوس بجھا سکیں ۔اور اس کے بدلے میں اس لڑکی کو ملنے والے پیسے اس کے اور اس کے گھر والوں کے پیٹ کی آگ بجھا سکے ۔

اس لڑکی کی داستان  کا آغازاس وقت ہوا جب والد کے انتقال کے بعد اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی ۔ اس کی والدہ کا خیال تھا کہ اس معاشرے میں بغیر مرد کے زندگی گزارنا مشکل ہے اور اس نے اپنی بیٹی کو باپ کے نام کا تحفظ دینے کے لۓ دوسری شادی کر لی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ محافظ ہی چور ثابت ہو گا ،

اس وقت اس کی عمر صرف تیرہ سال تھی جب اس کی ماں کسی کام سے گھر سے باہر گئی ۔اور اس کے سوتیلے باپ نے اس تنہائی سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔اس نے اس معصوم بچی کو کوئی نشہ آور چیز کھانے کو دی جس سے وہ ہوش کھو بیٹھی ۔بے ہوشی کے عالم میں اس کے سوتیلے باپ نے اس کی عزت لوٹ لی ۔

جب اس کو ہوش آیا تو اس نے اپنی اجڑی ہوئی حالت دیکھی اس سے قبل کہ وہ کچھ کہہ سکتی اس کے باپ نے اس کو سیڑھیوں سے دھکا دے دیا ۔اور وہ بری طرح زخمی ہو گئي ۔ جب اس کی ماں واپس آئی اور اس نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اس کو ہسپتال لے کر بھاگی۔

جب ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا تو اس کی ماں کو بتایا کہ جسم کی چوٹوں کے ساتھ ساتھ اس کی بیٹی اپنی عزت بھی گنو اچکی ہے ۔اس کی ماں کے لۓ یہ خبر ایک قیامت سے کم نہ تھی ۔اس گھر میں رہ کر کیا کرتی جس کو اس کی ماں نے اس کے تحفظ کے لۓ اپنایا تھا اور اس گھر کا محافظ ہی اس کی عزت کے درپے ہو گیا تھا ۔

https://www.facebook.com/sarwarshah1200/videos/1761170960589891/

مجبورا اس کو وہ گھر چھوڑنا پڑا ۔اس نے بھی ایک دفعہ عزت گنوانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دوبارہ ایسا نہیں ہونے دے گی مگر جہاں بھی نوکری کے لۓ گئی وہاں اس کے باس نے اس سے وہی مطالبہ کیا جو کہ اس کے سوتیلے باپ کا تھا ۔ زندگی کے اس مرحلے میں اس نے سوچا کہ جب عزت لٹانی ہی ٹہری تو پھر اپنی مرضی سے کیوں نہ اب وہ اپنی قیمت خود لگاۓ اور اس کے بدلے رقم بھی خود حاصل کرے ۔

بے آبروئی کا یہ سفر جس سے یہ کال گرل گزری ۔معاشرے کےعزت داروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔جو کہ عزتیں لوٹتے بھی ہیں اور پھر جس کی عزت لٹ جاۓ اس کو بے عزت بھی کرتے ہیں ۔

To Top