بیوی کو زنا کرتے دیکھ کر شوہر کے لیۓ لازم ہے کہ وہ بیوی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دین اسلام کی ساری تعلیمات قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہیں البتہ ان کی تشریح مختلف علما اپنے اپنے انداز اور طریقے سے فتوؤں کی صورت میں کرتے ہیں ۔کہا یہ جاتا ہے کہ ان فتوؤں کو مان کر ان پر اگر عمل کیا جاۓ تو اس صورت میں اس عمل کے ذمہ دار وہ عالم ہوتے ہیں جنہوں نے یہ فتوی دیا ہوتا ہے ۔

حال ہی میں شیخ الافتاء شیخ جمال قطب، فتویٰ کمیٹی جامعۃ الازہر کے سابقہ ڈائریکٹر مصر میں زنا کے قانون کی بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ زنا کرتے ہوۓ پکڑ لیتا ہے تو وہ اس کو چار گواہوں کی غیر موجودگی میں بھی قتل کر سکتا ہے ۔ چار گواہوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیۓ وہ چار بار قسم کھا کر گواہی دے سکتا ہے ۔

اس کے لیۓ شیخ صاحب نے سورہ نور کی آیات کا حوالہ دیا ہے

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّ۔هِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ 6 سورہ نور

جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لائیں اور ان کا کوئی گواه بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وه سچوں میں سے ہیں

چار بار قسم کھانے کے بعد وہ ایک اور قسم کھاۓ جس کا حوالہ بھی قرآن میں سورہ نور میں موجود ہے

وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّ۔هِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ  سورہ نور آیت 7

اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وه جھوٹوں میں سے ہو

اس کے بر خلاف اگر بیوی شوہر کو زنا کرتے دیکھ لے یا بدکاری کرتے ہوۓ دیکھ لے تو وہ شوہر کو قتل نہیں کر سکتی کیوںکہ ہو سکتا ہے کہ شوہر کے ساتھ جو عورت ہو وہ اس مرد کی دوسری یا تیسری بیوی ہو جس کے بارے میں عورت نہیں جانتی ۔

اس حوالے سے مذہبی حلقوں میں مختلف راۓ کا اظہار کیا جا رہا ہے کیوںکہ سورۃ النور کی آیت 8 کی رو سے اگر عورت بھی چار دفعہ قسم کھا لے اور کہہ دے کہ الزام جھوٹا ہے تو وہ معاف کی جاسکتی ہے

وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّ۔هِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ سورہ نور آیت 8

اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وه چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے

اور اس کے بعد اگلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ

وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّ۔هِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ

اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو

اس حوالے سے مختلف مذہبی حلقوں نے سوال اٹھاۓ ہیں کہ

سوال نمبر 1 جو شخص جامعۃ الازہر کی فتویٰ کمیٹی کا ڈائریکٹر رہا ہو اس کے کہے ہوئے (بلکہ ریکاڈڈ) فتوے /بیان پر میں یا آپ کیسے انگلی اٹھانے کی جسارت کر سکتے ہیں، یعنی یہ فتویٰ درست تسلیم کیا جانا ہم پر لازم ہے۔سوال نمبر 2 مثلاً زید اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے اور عدالت میں بیان دیتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو بکر کے ساتھ زنا کرتے دیکھا تھا اور اس امر پر چار مرتبہ قسم بھی کھا لیتا ہے۔ (یاد رہے کہ بیوی کو وہ قتل کر چکا ہے لہٰذا وہ تو جواباً قسم کھا کر اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتی) اور اس نے موقع پر ہی بیوی کو زنا کے جرم کی سزا کے طور پر قتل کر دیا ہے۔ شیخ صاحب کے مطابق تو ایسے شریف انسان کو قتل عمد کا مجرم قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔سوال نمبر 3 کیا یہ بے انتہا آسان ٹوٹکا نہیں بیویوں کو قتل کرنے کا؟

یہ سوال ایسے ہیں جن کا جواب ملنا بہت ضروری ہے ورنہ ہر مرد اپنی بیوی کواس فتوۓ کی روشنی میں قتل کرنے کے بعد چار بار قسم کھا لے گا اور اس کی بیوی اس کو جھٹلانے کے لۓ اس دنیا ہی میں موجود نہ ہو گی ۔

To Top