رسول خدا کے وصال کے تین مہینے کے بعد 3 جمادی الثانی سنہ 11 ہجری کو بی بی فاطمہ کا یوم شہادت قرار دیا جاتا ہے ۔ آپ کو ام الائمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور ام ابیہا کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔
بی بی فاطمہ کو سرکاردوعالم نے جنت کی عورتوں کا سردار قرار دیا، ایمان لانے والی تمام عورتوں کا سردار قرار دیا، جن کی رضا کو اللہ کی رضا اور جن کی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی قرار دیا، جن کے بارے میں یہاں تک فرما دیا کہ
جس نے فاطمہ کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا جس نے فاطمہ کو خوشی دی اس نے مجھے خوشی دی ۔
آج کے دور کی تمام خواتین کے لۓ حیات بی بی فاطمہ کے بارے میں جاننا اس لۓ بہت ضروری ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکیں کہ بی بی کی زندگی کے وہ کون سے پہلو تھے جو ان کو دنیا کی ساری عورتوں سے ممتاز کرتے ہیں ۔
بی بی فاطمہ بحیثیت بیٹی
ہمارے پیارے نبی کو بی بی فاطمہ کے ساتھ جو انس تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا۔ اس انسیت کا سب سے بڑا سبب بی بی کا وہ رویہ اور محبت تھی جو انہوں نے ہمیشہ سرکار دوعالم سے روا رکھا ۔
اور اسی رویہ کے سبب ان کی کنیت ام ابیہا یعنی اپنے والد کی ماں قرار پائی ۔نبوت کے چوتھے سال عام الحزن اے سال کے موقعے پر جب کہ حضور کی چاہنے والی عزیز ترین ہستیاں جن میں حضرت بیبی خدیجہ اور حضرت ابوطالب ساتھ چھوڑ گۓ اس وقت یہ بی بی فاطمہ ہی تھیں کہ جنہوں نے اس مشکل ترین دور میں اپنے والد کا ساتھ دیا ۔
ان کی حوصلہ افزائی کی ان کے زخموں کو دھویا ان کے سر پر سے جانوروں کی آلائشوں کو صاف کیا جو دشمن اسلام ان پر پھینک دیتے تھے ۔ یہ اسی محبت کا اثر تھا کہ سرکار دو عالم کسی بھی غزوے پر روانگی سے قبل سب سے آخر میں بی بی سے رخصت لیتے تھے اور واپسی پر سب سے پہلے ملاقات کرتے تھے ۔
بی بی فاطمہ بحیثیت بیوی
ویسے تو خاتون جنت کے رشتے کے خواہاں کافی لوگ تھے مگر نبی اکرم نے یہ فیصلہ اللہ پر چھوڑ رکھا تھا اور پھر حکم ربی کے مطابق حضرت علی کا انتخاب کیا گیا ان کے بارے میں حضور نے بی بی سے فرمایا کہ
میں نے تمہارے لۓ امت کے اولین اور بہترین مسلمان کا انتخاب کیا ہے ۔
بی بی نے بحیثیت بیوی کے ہر ہر موقعے پر اپنے شوہر کا ساتھ دیا ۔ ان کی شادی شدہ زندگی کا دورانیہ تقریبا نو سال رہا اس دوران ان کے پانچ بچے بھی ہوۓ جن میں سے ایک بیٹے محسن کے علاوہ سب نے حیات پائی ۔محسن کا وصال وقت پیدائش ہی ہو گیا تھا ۔
بی بی اپنے گھر کے سارے کام خود اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ ایک خاص بات جو تاریخ میں بھی درج ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر سے کبھی کسی بات کا مطالبہ نہیں کیا ہمیشہ اپنے شوہر کی رضا کو ہی اپنی رضا بنایا ۔
یہی سبب تھا کہ ان کے انتقال کے موقعے پر حضرت علی کو گہرا صدمہ پہنچا اور وہ بے ساختہ پکار اٹھے
اے رسول خدا، فاطمہ کے بعد آسمان و زمین بدصورت معلوم ہوتے ہیں، اور کبھی بھی میرے دل کا غم ہلکا نہیں ہو رہا ہے۔ میری آنکھیں نیند سے نا آشنا ہیں اور میرا دل سوز غم سے جل رہا ہے، جب تک کہ خدا مجھے آپ کے جوار میں بسا دے۔
بی بی فاطمہ بحیثیت ماں
ایک ماں کی بچوں کے لۓ تربیت کا آغاز اسی وقت سے ہو جاتا ہے جب کہ وہ اپنی ماں کی کوکھ ہی میں ہوتے ہیں ۔ ماں کی شخصیت کے اثرات ہی اس بچے کی آئندہ زندگی کے راہ کا انتخاب کرتے ہیں اور جب اللہ نے بی بی فاطمہ کی جھولی میں جنت کے نوجوانوں کے سردار اتارے اور نبی نے یہ فرما دیا کہ جنت میں کوئی بوڑھا نہیں جاۓ گا تو اس سے ثابت ہو گیا کہ جنت کے ہر فرد کے سردار حضرت امام حسن اور حسین ہوں گے ۔
ان کی تربیت کا فریضہ بی بی فاطمہ نے کیسا انجام دیا وہ ایک مثال ہے دین کی راہ کے لۓ دنیا قربان کر دینے کا سبق درحقیقت انہوں نے اپنی ماں ہی سے سیکھا ۔
بی بی فاطمہ کی شخصیت ہر دور کی خواتین کے لۓ ایک مثال ہے ۔ان کی پردے کی پابندی ، ان کی حق گوئی ، ان کی عبادت گزاری اور ان کی خدمت گزاری تمام خواتین کے لۓ ایک مثال ہے۔ اللہ ہم سب کو ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔