کیا معاشرہ بیوہ اور یتیم بچوں کا حق درست طریقے سے ادا کر رہا ہے

ابھی جنازہ اٹھا بھی نہیں تھا کہ خاندان والے ،ملنے جلنے والے اور دور پار کے عزیز و اقارب نے سوال اٹھانے شروع کر دیۓ تھے کہ بیٹی کو گھر بٹھا کر رکھو گۓ کیا ؟ کوئی اچھا لڑکا دیکھ کر اس کو اس کے ساتھ رخصت کر دینے میں دیر نہ لگانا ۔ جوان جہان بیٹی کو کب تک اس طرح گھر بٹھا کر رکھو گے

لوگوں کے ان سوالوں نے میرے ماں باپ کو میرے بیوگی کے غم سے زیادہ بوکھلا کر رکھ دیا ۔ ایک تو میرے والدین نے میری شادی انتہائی کم عمری میں کر دی تھی اس کے بعد ہر سال ایک بچے کے سبب اب میں شادی کے پانچ سالوں میں تین بیٹوں کی ماں بھی بن گئی تھی میرے شوہر کا جب روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوا تو میری عمر صرف بائیس سال تھی

میرا سب سے چھوٹا بیٹا ایک سال کا تھا ایک بیٹا ساڑھے چار سال کا اور ایک بیٹا ڈھائی سال کا تھا ۔ میرے شوہر ایک اسٹیٹ ایجنٹ تھے روڈ ایکسیڈنٹ میں جب ان کا انتقال ہوا تو میں کراۓ کے مکان سے اپنے امی ابو کے پاس آگئی

تعزیت کے لیۓ آنے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا ہر کوئی ان کی جوان موت اور میری اس کم عمری میں بیوگی پر افسردہ تھا اور میں سر جھکاۓ بیٹھے صرف یہی سوچ رہی تھی کہ نہ تو میرے پاس کوئی خاص تعلیم ہے اور نہ بنک بیلنس میں کیسے گزارہ کروں گی

عدت تک کا وقت جیسے تیسے گزارنے کے بعد جب میں نے اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیۓ سب سے مشورہ کیا تو ہر ایک کی یہی راۓ تھی کہ مجھے دوسری شادی کر لینی چاہیۓ کیوں کہ میرے والد بھی ایک سفید پوش انسان تھے ان کے لیۓ بھی میرا میرے بچوں کے ساتھ بوجھ اٹھانا بہت دشوار تھا (یہ سب انہوں نے مجھے نہیں کہا بلکہ میں نے خود ہی محسوس کیا )

میں نے نوکری کی تلاش میں جب گھر سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تو میری تعلیم آڑے آئی مگر میں نے کسی کام کو عار نہیں سمجھا اور ایک گارمنٹ فیکٹری میں نوکری کر لی صبح ساڈھے سات جب میں اپنے بڑے بیٹے کو اسکول روانہ کر کے چھوٹے دونوں امی کے حوالے کر کے گھر سے نکلتی تو میرا دل ان معصوموں کے پاس ہی رہ جاتا

فیکٹری میں ہر کوئی میرے ساتھ ہونے والے سانحے کے سبب مجھ میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتا کبھی لنچ اور کبھی آوٹنگ کی دعوت دیتا مگر ان میں سے کوئي بھی مجھے میرے بچوں سمیت نکاح کر کے قبول کرنے کو تیار نہ ہوتا

اس کے بعد امی نے شادی کا مشورہ دینے والے کئی عزیزوں سے کہا کہ اس کے لیۓ کوئي رشتہ ہو تو بتائیں امی کے اس سوال پر سب کو ایسی چپ لگ جاتی کہ اگلا کوئي جملہ ہی باہر نہ آتا

اور اگر کوئي بھولے بھٹکے رشتہ آبھی جاتا تو وہ رشتہ بھی صرف میرے لیے ہوتا پرائی اولاد کو پالنے کےلیۓ کوئي تیار نہ ہوتا اور میں اپنے بچے چھوڑنے کا سوچ بھی نہ سکتی تھی ان تمام حالات نے مجھے یہ حوصلہ دیا کہ اب ان بچوں کی ماں اور باپ صرف میں ہی ہوں اس وجہ سے مجھے ہی ان کے لیۓ کچھ کرنا ہے

اسی سبب نوکری کے ساتھ ساتھ میں نے کمپیوٹر کورسز بھی کرنے شروع کر دیۓ جو کہ نوکری کے بعد کے اوقات میں ہوتے تھے جس کے سبب میری گھر واپسی رات گۓ ہونے لگی میں جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہونا چاہتی تھی تبھی زيادہ محنت کر رہی تھی میرے دات گۓ گھر آنے کو میرے پڑوسیوں نے کسی اور نظر سے دیکھنا شروع کر دیا

جس کے بعد مجھے وہ سلسلہ بھی روکنا پڑا گارمنٹ فیکٹری کی قلیل تنخواہ میں گزارہ کرنا بہت مشکل تھا ترقی کی راہیں سب مسدود تھیں مجھے میرے بچوں کے ساتھ کوئی قبول کرنے کو تیار نہ تھا لہذا میرے پاس ایک ہی حل تھا

اس دن اتوار کا دن تھا میں نے خود بھی نہا دھو کر کپڑے پہنے اور اپنے بچوں کو بھی تیار کیا اس کے بعد امی سے کہا کہ میں ان کو گھمانے لے جا رہی ہوں نہر کنارے لے جا کر میں نے ایک ایک کر کے اپنے بچوں کو پل سے نیچے دھکیلنا شروع کر دیا اور آخر میں خود بھی چھلانگ لگا دی

آخرت میں جب مجھ سے میرا اللہ خودکشی اور قتل کے جرم کے بارے میں سوال کرۓ گا تو اس کا جواب میں نہیں یہ معاشرہ دے گا جو یتیم کے سروں پر ہاتھ رکھنے کے بجاۓ بیوہ کو پناہ دینے کے بجاۓ تماشہ دیکھتے ہیں

To Top