بیٹی کی شادی کی ڈولی سے جنازے کی ڈولی تک کا سفر ۔ایک دکھی باپ کی کہانی

‘کاکا دروازہ کھولو ‘ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا بڑھاپے کے سبب ایک تو نظر کم آتا تھا تو وقت کا پتہ نہ چل سکا مگر تاریکی بتا رہی تھی کہ ابھی سویرا نہیں ہوا تھا لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے کی جانب بڑھا تو سامنے میرے داماد کا چھوٹا بھائی کھڑا تھا

مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ کاکا چلو تمھیں بھا جی نے بلایا ہے میرے تو قدموں سے زمین ہی نکل گئی پتہ نہیں اب میری بیٹی نے کیا قصور کر ڈالا جس کے سبب رات کے اس پہر مجھے بلایا جا رہا تھا شادی کو چار سال ہو گۓ کبھی تو اس طرح آدھی رات کو مار پیٹ کر اس کو میرے دروازے پر چھوڑ جاتے تھے اور کبھی مجھے بلا کر اس کے سامنے ذلیل کر ڈالتے تھے

میں نے پیر میں جوتی پہنی اور ذلیل ہونے کے لیۓ اس کے ساتھ روانہ ہو گیا شاید بیٹی کا باپ ہونا ذلت ہی کی بات ہے تبھی تو میرا داماد تین بیٹیوں کے پیدا کرنے پر مجھے اور میری بیٹی کو بے طرح ذلیل کیا کرتا تھا کہ اس کو  لگتا تھا کہ مستقبل میں یہ بیٹیاں اس کو بھی اسی طرح ذلیل کروائیں گی

جب بیٹی کے گھر میں داخل ہوا تو میرا داماد مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا جہاں پلنگ پر میری بیٹی اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ سکون سے سو رہی تھی پہلی نظر میں اس کی یہ سکون بھری نیند دیکھ کر میری روح تک میں سکون اتر آیا مگر جب غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ان کا یہ سکون عارضی نہ تھا بلکہ وہ ہمیشہ کے لیۓ سو چکی تھیں اس دنیا کے عزابوں سے بہت دور جا چکی تھیں

میرے کانوں میں میرے داماد کی آواز گونج رہی تھی کا کاکا یہ گناہوں کی پوٹلیاں راتوں رات اٹھا کر اپنے گھر لے کر دفعان ہو جاؤ میں ان حرام موت مرنے والیوں کا جنازہ اپنے گھر سے نہیں اٹھاؤں گا مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں نے تو ایک بیٹی کو بہت مشکلوں سے ڈولی میں ڈال کر دعاؤں کے ساۓ میں رخصت کیا تھا اب ان چار ڈولیوں کو رخصت کرنے کا حوصلہ کہاں سے لاؤں گا

میری بیٹی شنو ماں کے مرنے کے بعد میری زندگی کا واحد سہارا تھی اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ہر جماعت میں اول پوزیشن لیتی تھی مگر جب دسویں پاس کی تو مجھے زمانے نے ڈرا ڈالا کہ میں اب جوان بیٹی کو نہیں سنبھال پاؤں گا اس لیۓ اس کے رونے کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ اس کا ہاتھ اپنے ایک جاننے والے کے بیٹے کے ہاتھ میں تھما دیا

شادی کے تین سالوں میں تین بیٹیوں کی پیدائش نے میری بیٹی کو وقت سے پہلے بڑا کر دیا اس پر ہر وقت کی لعنت ملامت اور مار پیٹ نے میری شنو کو مجھ سے بہت دور کر دیا میں بھی ہر بار کے جھگڑے کے بعد سمجھا بجھا کر اس کو واپس بھجوا دیا کرتا تھا کہ بیٹیاں تو اپنے ہی گھر اچھی لگتی ہیں

جب ہر جانب سے مایوسی اس کا مقدر ٹہری تو اس نے یہی فیصلہ کر لیا کہ ایک ایک کر کے بیٹی کو ڈولی میں بٹھا کر بھیجنے سے بہتر ہے کہ ایک ساتھ سب کو ڈولی میں ڈال کر منوں مٹی تلے ڈال دیا جاۓ تاکہ بیٹی کے باپ کو روز روز نہ مرنا پڑے

اس نے خود بھی زہر کھا لیا اور اپنی ان معصوم بچیوں کو بھی زہر دے کر روز روز کے مرنے کے بجاۓ ایک ہی بار مار دینا بہتر سمجھا

میری  بیٹی شنو خود تو مر گئی مگر مجھے اور اپنے شوہر کو روز روز مرنے سے بچا لیا مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اس بات پر آنسو بہاؤں یا سکھ کا سانس لوں ؟؟؟

 

To Top