بے نظیر بھٹو کے قتل سے جڑے ایسے انکشافات جو سب کو حیران کر دیں

بے نظیر بھٹو کا شمار دنیا کے ان چند رہنماؤں میں ہوتا تھا جن کی صلاحیتیں اور مقبولیت انہیں دنیا کے دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی تھیں ۔ پاکستان کو یہ شرف حاصل رہا کہ اس کا دامن کبھی بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہوا جو کہ اس کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ترقی کی منازل پر لے جا سکیں ۔

[adinserterblock=”15″]

مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کی یہ بدقسمتی رہی کہ وہ ایسے لوگوں کی بروقت قدر نہ کر سکے ان کے رتبے اور ان کی صلاحیتوں کو خراج تحسین ان کے مرنے کے بعد ہی دیتے رہے ۔چاہے وہ لیاقت علی خان ہوں ،ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر سب کی قبروں پر جا کر تو بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں مگر ان کی زندگی میں ان سے برا کوئی نہیں ہوتا ۔

ستائیس دسمبر 2007 میں راوالپنڈی کے مقام پر ایک قاتلانہ حملے کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اپنی جان کی بازی ہار گئیں ۔ابتدائی تحقیقات کے بعد ان کی قتل کی ذمہ داری القاعدہ کے رہنما بیت اللہ محسود نے قبول کر لی ۔

مگر گزشتہ سال عدالت نے اپنی کاروائی کے بعد القاعدہ کے گرفتار شدہ لوگوں کو اس الزام سے نہ صرف بری کر دیا بلکہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں اور ان کی سیکیورٹی میں غفلت برتنے پر دو پولیس افسران کو سزا سنا دی ۔

عدالت کے اس فیصلے سے بہت ساری ایسی باتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے جس کے بارے میں عوام ایک طویل عرصے سے چہ مگوئیاں کر رہی تھی ۔عوام کے نزدیک اس قتل میں دو مقتدر شخصیات کا نام لیا جارہا ہے ۔جن میں سے ایک پرویز مشرف تھے جو اس وقت حکومت کے سربراہ تھے ۔اور دوسرا نام آصف علی زرداری کا جن کو بے نظیر کے مرنے کے بعد نہ صرف بلاشرکت غیرے پیپلز پارٹی کی قیادت حاصل ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ صدارت کی کرسی بھی ملی ۔

پرویز مشرف پر یہ الزام لگاۓ جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بی بی نے بھی اپنے ایک خط میں یہ واضح کیا تھا کہ اگر ان کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار پرویز مشرف ہوں گے ۔پھر بی بی کے قتل کے بعد جاۓ وقوع کو فوری طور پر دھو دینا  اور ان کے قتل کی تحقیقات میں غفلت برتنا ، سیکیورٹی خدشات کے باوجود بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی جلسے کی اجازت دینا ایسے الزامات ہیں جن کا آج تک پرویز مشرف جواب دینے میں ناکام رہے ہیں ۔

دوسری جانب اگر آصف زرداری کو دیکھا جاۓ تو بے نظیر بھٹو کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ انہی کو پہنچا ان کا سب سے پہلا جرم یہ ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے باوجود انہوں نے خود کینیڈا میں بیٹھ کر بے نظیر بھٹو کو پاکستان بھیجا ۔

اس کے بعد اپنے حکومتی دور میں جب کہ وزیر اعظم کی کرسی اور صدارت کی کرسی دونوں ان کے پاس تھی انہوں نے اس قتل کی تحقیقات میں کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔انہوں نے بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم کروانے سے بھی منع کیا جو کہ تحقیقات میں مدد گار ثابت ہو سکتا تھا ۔

اس کے بعد ایک جانب تو پیپلز پارٹی پرویز مشرف پر اس قتل کا الزام لگا رہی تھی اور دوسری جانب پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ملک سے باہر بھیج رہی تھی کیا اس سے آصف زرداری اور پرویز مشرف کے گٹھ جوڑ کا اشارہ نہیں ملتا ؟

ایسے ہی بہت سارے سوالات عوام کے دل و ذہن میں موجود ہیں ؟ جن کا جواب آج دس سال بعد بھی نہیں مل سکتا ۔ہو سکتا ہے آنے والا وقت اس خون ناحق کے قاتلوں کو نہ صرف سامنے لے آۓ بلکہ ان کو نشان عبرت بھی بنا سکے ۔

 

To Top