بے نظیر باپ کی بے نظیر بیٹی

بے نظیر بھٹو ایک نام، ایک دور، تاریخ کا باب ،ایک سنگ میل، ایک مظلوم ،کتنے بہت سارے حوالے اس ایک نام کے ساتھ زندہ ہو جاتے ہیں۔ایک بیٹی جو اس وقت یتیم ہوئی جب وہ یسیری کے حقیقی معنوں سے بھی نا واقف تھی ، پھر بے وطنی کا عذاب ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ حوصلہ ہار بیٹھتی مگر اس کے حوصلوں کی اڑان تو کچھ اور سوچ کے بیٹھی تھی ۔اس نے بس آگے بڑھنا تھا ا س کے لئے اس نے سب سے پہلے ہاورڈ اور آکسفورڈ جیسے مایہ ناز تعلیمی اداروں کی تعلیم سے اپنے آپ کو مزین کیا۔

وہ جانتی تھی کہ جن راستوں پر اس نے سفر کا فیصلہ کیا ہے وہاں اس کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی تعلیم ہی ہو گی۔ لہذا اس نے تعلیم کی تکمیل تک کسی اور جانب دھیان نہیں دیا ، تملیم کی تکمیل کے بعد اس کے مقصد نے اسے پکارنا شروع کر دیا۔ اسے اپنے والد کے ان خوابوں کو تعبیر دینی تھی جو انہوں نے پاکستان کے لئے دیکھے تھے ۔ایک ترقی یافتہ اور مضبوط پاکستان کا خواب۔ 1986 میں اس نےپاکستان کی جانب رخت سفر باندھا اس کے ہمراہ اس کے مشکل دور کی ہمسفر ، اس کی ماں بھی اس کے ساتھ تھی ۔

benazir-bhutto

Source: Twitter

کراچی ائیرپورٹ شاہد ہے کہ کیسے پاکستان والوں نے اپنی محبتوں سے اپنے عوامی لیڈر کی بیٹی کو محبتوں سے مالامال کر دیا ۔بےنظیر جو اپنی گلابی رنگت کے سبب پنکی کہلاتی تھی ۔ اس دن اس کی یہ رنگت لوگوں کی اس محبت کو دیکھ کر اور نکھر گئی ۔بچے بوڑھے ، مرد عورت غرض ہر کوئی اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کر رہا تھا ۔ اس موقعے پر بے نظیر نے یہ کہہ کر کہ پیپلز پارٹی انتقام کے بجاۓ جمہوریت پر پقین رکھتی ہے، تمام نقادوں کے منہ بند کروا دئیے ۔

قوم کی یہ محبت اپنی اس بیٹی کے لئے اسی طرح برقرار رہی ۔2007 میں بے نظیر اب ایک تجربہ کار سیاسی لیڈر میں تبدیل ہو چکی تھی اب لوگ اس کو پنکی نہیں بلکہ بی بی پکارتے تھے ۔جب اس نے سات سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرتے ہوۓ ملک واپس آنے کا فیصلہ کیا تو سب نے بہت روکا ، اس کی زندگی کو شدید خطرات لا حق تھے مگر وہ خود کو اپنی عوام کی ان محبتوں سے دور نہ رکھ پائی ۔ اس نے واپسی کا فیصلہ کر لیا ۔ 18 اکتوبر 2007 کو جب وہ ائیر پورٹ اتری تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اس کی آنکھوں کے سامنے سے پہلے اپنی یتیمی اور بے وطنی کے ایام گزرے ۔پھر اپنے بچوں کے ، جنہوں نے باپ کے زندہ ہوتے ہوۓ بھی اپنا پورا بچپن باپ کے بغیر گزارا۔ اس نے ٹھان لیا تھا کہ اس بار سارے ادھورے کام مکمل کرنے تھے ، عوام کی ان محبتوں کا حق ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کر کے ہی اتارا جا سکتا ہے۔

مگر ملک و قوم کے دشمنوں کو ملک کی ترقی گوارہ نہ تھی۔ ان کی غیرتیں ایک عورت کو جس کو وہ پیر کی جوتی سمجھتے ہیں ملک کی وزیر اعظم کے طور پر دیکھنے کو تیار نہ تھیں ۔ بے نظیر کا قافلہ ائیر پورٹ سے جب کارساز تک پہنچا تو وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ۔ دو دھماکے ہوۓ متعدد ہلاکتیں ہوئیں ۔ بی بی اس حادثے سے بچ گئیں ۔

BeFunky Collage

Source: The Express Tribune

وہ ایک عام عورت ہوتیں تو شاید ڈر جاتیں یا گھر بیٹھ جاتیں مگر ان کے ارادے مضبوط تھے ۔انہوں نے اپنے کاموں کو رکنے نہیں دیا ۔بدقسمتی سے 28 دسمبر 2007 راولپنڈی میں دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوا ۔مگر اب کشتی کے پتوار بلاول نے سنبھال لی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی ماں اور اپنے نانا کے مشن کو آگے لے کے چلے گا۔

کرونا وائرس،بلاول بھٹو کا سنجیدہ بیان ، پاکستانی عوام بھی سراہنے پر مجبور

To Top