بہن کے ہاتھوں بہن کا قتل ، اس زمین کے پہلے قتل کی یاد تازہ کر گیا

قابیل عمر میں بڑا تھا جب کہ ہابیل اس سے چھوٹا تھا ۔ دونوں حضرت آدم کے بیٹے تھے ۔ان کا قصہ قرآن کی سورۃ المائدہ میں بیان ہوا ہے ۔قابیل قظرتا تیز اور برائی کی جانب راغب فطرت کا حامل تھا ۔اور پھر اسی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس دنیا کا سب سے پہلا قتل قابیل نے اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کا کیا ۔

اس کے بعد نوع انسانی کی رہنمائی کے لۓ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آۓ ۔مگر اس رہنمائی کے باوجود اکیسویں صدی میں ہونے والے اس قتل نے ایک بار پھر انسانی تہذیب پر سوال اٹھا دیۓ ہیں جب کہ ایک سگی بہن اپنی بہن کو کچھ فائدوں کے لۓ ہلاکت میں ڈال دیتی ہے۔

پانچ دسمبرکو کراچی کے علاقے ملیر سعود آباد میں ہلاک ہونے والی علینہ جس کے قتل کو ڈکیتی بتایا جارہا تھا ۔گزشتہ دن اس کی بہن علوینہ نے میڈیا کے سامنے آکر اس بات کو تسلیم کر لیا کہ علینہ کی قاتل کوئی اور نہیں اس کی اپنی سگی بہن یعنی وہ خود تھی ۔

تفصیلات کے مطابق سترہ سالہ علوینہ کا اکثر اپنی بہن سولہ سالہ علینہ سے جھگڑا رہتا تھا ۔جس کا سبب کچھ ایسی نازیبا ویڈیوز تھیں ۔جن کی بنیاد پر چھوٹی بہن بڑی بہن کو بلیک میل کرتی تھی ۔اس واقعے کا سب سے بدترین پہلو یہ ہے کہ ماں باپ بھی اس امر سے واقف تھے ۔

دونوں لڑکیوں کے ماں باپ نوکری کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتے تھے ۔جس کے سبب ان دونوں بہنوں کو ایک بڑا وقت گھر میں تنہا گزارنے کا موقع ملتا تھا ۔اسی وجہ سے ان کے گھر لڑکوں کا اور بقول لڑکیوں کے ان کے منگیتروں کا آنا جانا تھا۔

بڑی بہن علوینہ کی چھوٹی بہن علینہ کے منگیتر کے ساتھ کچھ نازیبا ویڈیوز ان دونوں کے درمیان وجہ تفاوت تھیں ۔ علوینہ کے بقول اس نے کئی دفعہ اپنی چھوٹی بہن علینہ اور اس کے منگیتر احسن سے درخواست کی تھی کہ اب جب کہ اس کی منگنی مظہر نامی لڑکے سے ہو چکی ہے تو اس کی ویڈیوز ضائع کر دی جائيں ۔

مگر کئی دفعہ مطالبات کے باوجود علینہ اس امر پر تیار نہیں نتیجہ کے طور پر علوینہ نے اپنے منگیتر کے ساتھ مل کر علینہ کو اپنی راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کے لۓ انہوں نے اس دن کا انتخاب کیا جس دن ان کے ماں باپ گھر پر نہ تھے ۔ اس دن مظہر اپنے ایک دوست کے ساتھ علوینہ کی مدد سے گھر میں داخل ہوا ۔

اس کو آلہ قتل چھری بھی علوینہ نے مہیا کی ۔اور بقول علوینہ اپنی بہن کا گلا کاٹنے کے لۓ پہلا وار بھی اسی نے کیا ۔اس کے بعد مظہر کی مدد سے اس نے اپنی بہن کو ذبح کیا ۔اور اس واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دینے کے لۓ اپنے بازو اور سر پر بھی چھری کے زحم لگاۓ ۔

اگرچہ یہ کیس اب حل ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود علوینہ کے ماں باپ نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے کہ علوینہ اپنی بہن کو قتل نہیں کر سکتی اور یہ اقبالی بیان پولیس نے کسی دباؤ کے تحت لیا ہے ۔ اس سارے واقعے میں کچھ نکات البتہ ایسے ضرور ہیں جن کو تسلیم کرنا بہت مشکل محسوس ہو رہا ہے

سب سے پہلے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چھوٹی بہن کے منگیتر کے ساتھ بڑی بہن کی نازیبا ویڈیوز کیوں بنائی گئی تھیں ۔اس کے بعد ایسے کیا حالات تھے جس کے سبب چھوٹی بہن بار بار بڑی بہن سے یہ مطالبہ کرتی تھی کہ وہ اس کے منگیتر یعنی احسن کے ساتھ ناجائز تعلق رکھے ۔اور مطالبہ پورا نہ کرنے پر کی صورت میں بلیک میل کرنے کی دھمکی دیتی ۔

ایک اور بات جس نے سوال اٹھایا وہ ماں باپ کا رویہ تھا ۔ جو کہ خود نوکری پیشہ تھے مگر ان کی بیٹیوں کے پاس اتنے مہنگے مہنگے فون تھے مگر انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ یہ سب کہاں سے آرہا ہے ۔ اور جب ان کو پتہ چل گیا کہ ان کی بیٹیوں کے بیچ میں کچھ ویڈيوز وجہ نزاع ہیں تو انہوں نے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا ۔اور جب علوینہ کا منگیتر سب جانتا تھا تو پھر علوینہ کو کس بات کا ڈر تھا ؟

علوینہ کے والدین کے مطابق اس معاملے میں پولیس اصل ملزم کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے جس کے بارے میں وہ وقت آنے پر بتائیں گے ۔تو وہ کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں ۔یہ سب اور اس جیسے بہت سارے سوالات نے اس معاملے کو بہت الجھا دیا ہے ۔

To Top