ہم اپنے اکلوتے بھائی کو لے کر شہر کے پانچ بڑے ہسپتالوں میں گۓ مگر وہ ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے ہم سے جدا ہو گیا ‘ ایک مظلوم بہن کی فریاد

آج کل سوشل میڈیا پر ایک دکھی بہن کا پیغام وائرل ہو رہا ہے جس کا چودس سالہ بھائی ڈاکٹروں کی بے توجہی کے سبب زندگی کی بازی ہار بیٹھا ۔ اس معاملے کا ذمہ دار کوئي؛ فرد واحد نہیں ہے بلکہ ایک کے بعد ایک کر کے کراچی جیسے شہر کے پانچ بڑے اور نامی گرامی ہسپتالوں کے ایمرجنسی میں اس بچے کو لے جایا گیا مگر کسی کی جانب سے بھی کوئی مناسب قدم نہیں اٹھایا گیا

اپنے فیس بک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا چودہ سالہ بھائي انیب عباس عید کے پہلے دن زندگی کی بازی ہار کر ان کو چھوڑ کر چلا گیا انہوں نے اپنے پیغام میں مذید یہ بھی بتایا کہ انتیس رمضان المبارک کو ان کے بھائی کو سینے پر گرنے کی وجہ سے چوٹ لگی اس وقت وہ روزے کی حالت میں تھا ۔روزہ کھولتے ہی اس کے سینے اور پیٹ میں شدید درد اٹھا اور اس کی ناف میں سے خون جاری ہو گیا

اس کو فوری طور پر ضیا الدین ہسپتال لے جایا گیا جنہوں نے صرف اور صرف پیسے بٹورنے پر اپنی توجہ رکھی اور اس بچے کے درد میں کمی کے لیۓ کوئی اقدام نہیں کیۓ ۔ الٹرا ساونڈ اور سی ٹی اسکین کروا لیا پیسے لے لیے مگر درد میں افاقہ نہین ہوا اس کے بعد اس کو لےکر سیفی ہسپتال گیۓ

جنہوں نے ایکس رے کیا اور اس کو نارمل روٹین کی درد کم کرنے والی ادویات دیں اور کہا کہ آپ پیسے جمع کروا دیں اگر صبح تک اقافہ نہ ہو تو لیاقت نیشنل لے جائیں کیوںکہ ہمیں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا ہے

اس کے بعد وہاں سے اٹھا کر بچے کو کراچی کے سب سے بڑے ہسپتال آغا خان لے گۓ جہاں کہ ڈاکٹرز نے جزوی معائنے کے بعد فیصلہ کر لیا کہ بچے کو کچھ بھی نہیں ہوا وہ صرف ڈرامہ کر رہا ہے انہوں نے باقی ہسپتالوں کے الٹرا ساونڈ ، سی ٹی اسکین اور ایکس رے پر ہی اکتفا کیا جب ان سے درخواست کی کہ اس کا ایم آر آئی کر لیں تو ان کا کہنا تھا کہ چار گھنٹے وہاں بیٹھے گا تو ٹھیک ہو جاۓ گا

انہوں نے میرے بھائي سے کہا کہ اٹھو چلو پھرو اچھلو کودو تم ٹھیک ہو جاؤ گے اور صرف کہا ہی نہیں بلکہ آدھے گھنٹے تک اس کو اس شدید درد کے باوجود کھڑا رکھا اس کے بعد اس کو چھٹی دے دی ڈاکٹروں کی بے توجہی کی انتہا دیکھیں کہ انہوں نے ڈسچارج سلپ پر میرے بھائی کو چودہ سالہ لڑکی قرار دیا

اس کے بعد ان کا رپورٹ میں کہنا تھا کہ بچہ جب آیا تو سکون سے لیٹا ہوا تھا جب کہ میرا بھائی شدید درد کی حالت میں تھا تیسرا انہوں نے لکھا ہے کہ کسی عماد نامی ڈاکٹر نے میرے بھائی کا معائنہ کیا جب کہ معائنہ کرنے والی تو ایک لیڈی ڈاکٹر تھی کوئی عماد نہیں تھا وہاں چوتھا جب انہوں نے میرے بھائی کو ڈسچارج کیا تو وہ پرسکون حالت میں تھا جب کہ میرا بھائی جب وہاں سے نکلا تو اس وقت بھی وہ شدید درد کی حالت میں تھا

اس کے بعد ہم اپنے بھائی کو لے کر امام زین العابدین ہسپتال گۓ جہاں پر میرے بھائی کا درد شدت اختیار کر چکا تھا اس کا سینہ پتھر کی طرح سخت ہو چکا تھا اور اس کو متلی ہو رہی تھی جب ہم نے وہاں کے ڑاکٹروں سے جلدی ٹریٹمنٹ دینے کو کہا تو ان کا کہنا تھا کہ آپ خود کر لیں یا پھر اس کو اٹھا کر کارڈیو لے جائیں یہ ہمارا کیس نہیں ہے

اس مظلوم بہن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح ترپ تڑپ کر میرے بھائی نے عید کے پہلے دن جان دے دی مگر اس کی موت کے سبب ہمارا پاکستان کے تمام ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے بھی اعتبار رخصت ہو گیا ۔

To Top