اردو ادب کی نامور مصنفات بانو قدسیہ اور عمیرہ احمد میں کیا فرق ہے؟

اردو زبان کو یہ فخر حاصل رہا ہے کہ اس کا دامن ہمیشہ اعلی پاۓ کے ادیبوں اور شعرا کرام سے بھرا رہا۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اعلی پاۓ کا ادب تخلیق کیا ہے۔ بات شاعری کی ہو تو پروین شاکر، نوشی گیلانی ،زہرہ نگار جیسی شاعرہ آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ اور نثر نگاری میں قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی ، امرتا پریتم، بانو قدسیہ ایسے نام ہیں جن کی ادبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔

بانو قدسیہ جو کہ ماضی قریب کی ناول نگار تصور کی جاتی ہیں ان کا ناول راجہ گدھ اپنی معنویت اور پلاٹ کے سبب انتہائی پختہ اسلوب کا ناول تھا۔ جس کو کلاسیکل ادب کو پسند کرنے والے آج بھی لازمی طور پر اپنی لائبریری کا حصہ بنا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کی ہم عصر مصنفین میں فاطمہ ثریا بچیا ، اور حسینہ معین بھی شامل ہیں۔

مگر یہ دونوں ڈرامہ نگاری کی جانب زیادہ متوجہ رہیں اور وقتا فوقتا ان کے ڈرامے ٹی وی کا حصہ بنتے رہے ۔ خواتین مصنفات کا سلسلہ یہیں نہیں تھما بلکہ ان میں عمیرہ احمد ایک ہوا کے تازے چھونکے کی طرح اردو کے آسمان پر چمکیں۔ عمیرہ احمد نے آغاز اردو افسانوں سےکیا اور پھر ناول نگاری کی جانب راغب ہو گئيں ۔

ان کے ناول پیر کامل کو ویسی ہی مقبولیت حاصل ہوئی جو قرۃالعین حیدر کےآگ کے دریا ،پروین شاکر کی خوشبو اور بانو قدسیہ کی راجہ گدھ کو حاصل ہوئی۔ پیر کامل کا موضوع بھی ہر ناول کی طرح ایک محبت کی کہانی پر ہی مشتمل تھا۔ مگر اس میں جدید معاشرے کے ماحول کے ساتھ مذہبی آمیزش نے چار چاند لگا دیۓ ۔

یہی سبب ہے کہ عمیرہ احمد کسی خاص عمر کی خواتین کی پسند نہیں رہیں بلکہ ہر عمر کی خواتین کی پسندیدہ مصنفہ بن گئیں ۔ کچھ لوگ عمیرہ احمد کا موازنہ بانو قدسیہ سے بھی کرتے ہیں۔ مگر ادبی طالب علم کی حیثیت سے یہ جسارت کرنا چاہوں گی کہ دونوں کا موازنہ کرنا قطعی طور پر درست نہیں۔

کیونکہ دونوں ادبی آسمان کے افق پر چمکنے والے وہ آفتاب ہیں جن کا اپنا اپنا مقام ہے ۔ بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں معاشرے کے جس پہلو کی نشاندھی کی تھی ۔ وہ ان ہی کا وطیرہ تھا ۔ کردار نگاری ، جزیات نگاری میں ان کا ہم پلہ کوئی نہیں ہو سکتا ۔ ان کے ناول کو پڑھنے والا ہر ہر لفظ میں خود سانس لے رہا ہوتا ہے

جب کہ اگر پیر کامل کو دیکھیں تو اس کی کہانی کا پلاٹ ،اس کا پھیلاؤ اور موضوع پر عمیرہ احمد کی پکڑ اس کی کہانی اور اس کے پلاٹ پر دسترس کو ثابت کرتی ہے ۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ مقبول ادب تخلیق کرنا ایک آسان کام ہے ۔مگر عمیرہ احمد نے لوگوں کے اس نظریے کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ مقبول ادب کے ساتھ ساتھ معیاری ادب تخلیق کر کے تنقید نگاروں کے منہ بند کر دیۓ۔

To Top